Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Abu Nasr
  3. Kuch Aisi Dheet Hai Kam Bakhat Aati Hai Na Jaati Hai

Kuch Aisi Dheet Hai Kam Bakhat Aati Hai Na Jaati Hai

کچھ ایسی ڈھیٹ ہے کم بخت آتی ہے نہ جاتی ہے

جی چاہتا ہے کہ نام لے لے کر نشان دہی کی جائے۔ مگر کسی کا نام لے کر سرِ عام رُسوا کرنے کی اجازت ہماری طبیعت دیتی ہے نہ تہذیب۔ برقی ذرائع ابلاغ پر نمودار ہونے والے کئی نام وَر حضرات اور تقریباً تمام نام وَر خواتین اُردو کے نام کو بٹّالگا رہی ہیں۔ معلوم نہیں کہ اُنھیں بٹّا لگانے، کا مطلب بھی معلوم ہے یا نہیں؟ خواتین کے مروّجہ مطبخ میں تو سِل بٹّا، بالکل بے رواج ہو چکا ہے۔ لو بھلا مطبخ، کا لفظ کون سا رائج ہے؟ مطبخ ہی نہیں، اب تو باورچی خانہ، بھی بے رواج ہو چکا ہے۔ سِل بٹّے کی جگہ مسالا پیسنے والے برقی آلات نے لے لی ہے۔

احساسِ مروّت کو کچل دینے والے اِن آلات کے بیچ مسالے ہی نہیں، خواتین کی شیریں زبان، اُن کارسیلالب و لہجہ اُن کے چٹخارے دار محاورے اور ہماری رومان انگیز تہذیب بھی پِس گئی ہے۔ منجمد کھانوں کو پگھلانے کے لیے گھروں میں ننھی ننھی برقی لہروں کے تنور آگئے ہیں، جنھیں مائیکرو ویو اوون، کہا جاتا ہے۔ برقی لہروں کے اس تنور میں سرد کھانوں کے ساتھ ساتھ سرد مہری کا شکار ہوجانے والی کچھ اور چیزیں بھی رکھ دی گئی ہیں اور وہ بھی ساتھ ہی دم پُخت، ہوگئی ہیں۔ تربیتِ اطفال، بالخصوص بچیوں کے لیے اُمورِ خانہ داری کی تربیت، خاندانی روایات اور ادب آداب سب ہی کچھ اس برق رفتار چولھے میں جھونک دیا گیا ہے۔ یوں ہماری پوری گھریلو تہذیب کو بٹّا لگا دیا گیا۔

بٹّا، یوں تو پتھر کے اُس ٹکڑے کو کہتے ہیں جس سے سِل پر مسالا پیسا جاتا تھا، مگر کسی کے نام کو بٹّا لگاناکسی کی عزت و شہرت کو داغ دار کر دینا، عیب دار بنا دینا یا دھبّا لگا دینا ہے۔ محمد علی تشنہ دہلی کا مرثیہ بعنوانؔ دار و رسن، لکھتے ہوئے دلّی کے تاجروں کا احوال یوں سناتے ہیں:

وہ ساہوکار نہ تھا جس کی ساکھ میں بٹّا
اب اُس کے نام پہ لگتا ہے لاکھ میں بٹّا

ہمارے قومی ذرائع ابلاغ جس طرح قومی زبان کے نام کو بٹّا لگا رہے ہیں وہ بتانے کی حاجت نہیں، صرف سننے اور دیکھنے کی حاجت ہے۔ ہمارے برقی ذرائع ابلاغ کا بڑا عیب یہ ہے کہ عیب دار زبان نشر کرنے کو عیب سمجھا ہی نہیں جا رہا ہے۔ کہنے کو ہر نشریاتی ادارے کی نشریات اُردو میں ہو رہی ہیں۔ سننے بیٹھیے تو اُردو کا ایک آدھ لفظ ہی سننے کو ملے گا۔ باقی انگریزی کے نامطلوب الفاظ کی بھر مار ہے۔ ہم یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ جو خواتین و حضرات اُردو نشریات میں مسلسل بے تکان بولے جاتے ہیں، اگر اُن پر یہ پابندی لگا دی جائے کہ وہ اُردو بولتے ہوئے انگریزی کا ایک لفظ بھی نہ بولیں، تو یقین مانیے سب کے سب گنگ ہو کر رہ جائیں گے۔

اِنھیں کالموں میں ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں (دوبارہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں) کہ دیگر زبانوں کی طرح انگریزی زبان سے بھی اُردو نے بے شمار الفاظ قبول کیے ہیں۔ جن انگریزی الفاظ کا تلفظ اُردو کے مزاج اور اُردو تلفظ کے ترنم سے ہم آہنگ تھا اُنھیں جوں کا توں قبول کر لیا گیا۔ مثلاً جج، نل، مشین، کاپی، نوٹ، ٹائی، کوٹ، کالر، کاج، بٹن، ووٹ، اسمبلی، فیشن اور موٹر وغیرہ۔ بہت سے انگریزی الفاظ کو اُردو نے اپنے تلفظ کے ترنم میں ڈھال لیا ہے۔ مثال کے طور پر بوتل، لالٹین، لاٹ صاحب، میم صاحب، بشرٹ، پتلون، اَلمونیم اور اس کا بکس یا بکسا، میز کی دراز (Drawers) کاریگروں کا پانا (Spanner)اور پلاس (Pliers) وغیرہ ایسے الفاظ ہیں جن کا تلفظ تبدیل کرکے اپنایا گیا ہے۔

انگریزی مہینوں کے ناموں میں سے مارچ، جون اور جولائی کو اُردو تلفظ کے ترنم کے مطابق ہونے کی وجہ سے جوں کا توں قبول کر لیا گیا، بقیہ مہینوں کا تلفظ اُردو کے مزاج کے موافق کر لیا گیا۔ چوں کہ اُردو اور اس کی ہم شیر زبانوں میں کسی لفظ کا آغاز ساکن حرف سے نہیں ہوتا، ہر لفظ کا پہلا حرف ہمیشہ متحرک ہوتا ہے، چناں چہ اِسکول، اِسٹول، اِسٹال اور اِسٹیشن وغیرہ کے تلفظ میں زیر کے ساتھ الف کا اضافہ کرکے زبان پر رواں کر لیا گیا۔ اِس املا اور اس تلفظ کو مقتدرہ قومی زبان پاکستان کی سند بھی حاصل ہے۔ جو لوگ ان الفاظ کے آغاز میں الف لگانے کے قائل نہیں، وہ بھی ان الفاظ کے پہلے حرف پر مجبوراً کوئی نہ کوئی حرکت لگا کرہی بولتے ہیں۔ سُکول، سَٹول اور سَٹال وغیرہ۔

انگریزی کے جو الفاظ اُردو کے ذخیرۂ الفاظ کا جزو بن چکے ہیں، وہ اُردو زبان کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ اُن سے بننے والے مرکبات اُردو کے قاعدے کے مطابق بنائے جاتے ہیں۔ قبول کیے جانے والے انگریزی الفاظ کی جمع بھی اُردو ہی کے قواعد کے مطابق بنائی جاتی ہے۔ مثلاً انگریزی میں لفظ 'Fee'واحد ہے اور اس کی جمع 'Fees'ہے۔ جب کہ اُردو میں لفظ فیس، واحد ہے اور اس کی جمع اُردو قاعدے کے مطابق فیسیں، یا فیسوں، کی جاتی ہے۔ ذرا یہ فقرے بھی دیکھیے: "ضرورت مند خواتین میں سلائی مشینیں تقسیم کی گئیں"۔ "نئے ججوں نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھا لیا"۔

"سرکاری اِسکولوں کے طلبہ کو کتابیں اور کاپیاں مفت فراہم کی جائیں گی"۔ "ماہِ فروری میں پندرہ مقامات پر پانی کی موٹریں نصب کی گئیں"۔ "اراکینِ قومی اسمبلی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں"۔ ان مثالوں میں"سلائی مشینیں"، "ماہِ فروری" اور "اراکینِ قومی اسمبلی"جیسے مرکبات اُردو قاعدے کے مطابق بنائے گئے ہیں، جب کہ مشینیں، ججوں، اِسکولوں، کاپیاں، موٹریں اور ووٹوں جیسے اسمائے جمع انگریزی قاعدے کے موافق نہیں بلکہ اُردو کے مزاج کے مطابق استعمال کیے گئے ہیں۔

اُردو میں جذب ہو جانے والے انگریزی الفاظ کے استعمال میں کوئی حرج ہے نہ اس پر اعتراض۔ لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ میں اُردو کے ہر لفظ کو بے دخل کرکے اُس کی جگہ اُردو فقرے میں زبردستی انگریزی الفاظ ٹھونسنے کی جو رِیت چل پڑی ہے وہ سخت گراں گزرتی ہے۔ اس پھوہڑپن سے نہ صرف زبان کا حسن متاثر ہوتا ہے بلکہ ابلاغ میں بھی رکاوٹ پڑتی ہے۔ مثلاً ایک معروف میزبان خاتون فرماتی ہیں: "پیرنٹس کی نیکسٹ پرائریٹی یہ ہوتی ہے کہ بچہ اچھے اسکول میں جائے"۔

ہمیں یقین ہے کہ "پیرنٹس کی نیکسٹ پرائریٹی" کی جگہ "والدین کی اگلی ترجیح" بولنا اُن کے بس کی بات نہیں۔ اس بے بسی کے باوجود بولنے کے لیے اُنھیں کو رکھا جائے گا، کیوں کہ وہ خاتون ہیں اور زبان نہ سہی، شکل صورت تو اچھی ہے۔ اُن کا سنگھار درست کرنے کے لیے تو ملازم رکھے جاتے ہیں مگر زبان درست کرنے کے لیے کوئی اتالیق رکھنا نشریاتی اداروں کی "نیکسٹ پرائریٹی" ہے ہی نہیں۔

مثالیں تو بہت ہیں۔ بس ایک مثال اور لے لیجیے۔ ایک اور نظامت کار جو شہرت کا مینار ہیں، حالاتِ حاضرہ پر بات کرتے ہوئے پہلے تو اپنی "ٹینشن" (پریشانی) کا اظہار کرتے ہیں، پھر ہاتھ نچا نچا کر اور منہ بگاڑ بگاڑ کر کہتے ہیں کہ "یہ بہت سِن سیٹو اِشو ہے"۔ اگر وہ یہ کہنے کے قابل ہوتے کہ "یہ بہت حساس مسئلہ ہے" تو اتنا کہنے کے لیے اُنھیں ہاتھ نچانا پڑتا نہ منہ بنانے کی نوبت آتی، رگ پٹھوں پر زور دینا پڑتا نہ اُن کے اعضا و جوارح اتنی زحمت اُٹھاتے۔ اُن کے انگ انگ کی یہ حالت دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ استاذ الاساتذہ پروفیسر محمد سلیم ہاشمی انگریزی کو بڑے اہتمام کے ساتھ ہمیشہ "انگ-ریزی" کیوں لکھتے ہیں۔

ٹیلی وژن چینلوں کی نشریات میں فقروں کے فقرے ایسے ملتے ہیں جن میں اُردو کے صرف حروفِ ربط استعمال کیے جاتے ہیں (کا، کی، کے، تھا، تھی، تھے، سے، میں، پر اور تک وغیرہ) بقیہ تمام الفاظ انگریزی کے ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں ایسے فقرے لوگوں کو ہنسانے کے لیے بنائے جاتے تھے۔ ستم تو یہ ہے کہ اُردو تو اُردو اِن خواتین وحضرات کو انگریزی بھی نہیں آتی۔ بقول انورؔ مسعود:

کبھی پھر گفتگو ہوگی کہ یہ سوغاتِ افرنگی
عموماً آدمی کی ذہنیت کیسی بناتی ہے

ابھی اتنا کہے دیتا ہوں انگریزی کے بارے میں
کچھ ایسی ڈھیٹ ہے کم بخت، آتی ہے نہ جاتی ہے

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari