خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ

ہم نہ مرتے تِرے تغافل سے، پُرسشِ بے حساب نے مارا۔ پُرسشوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ تین جمعے بے کالموں کے کیوں گزر گئے؟"فرائیڈے اسپیشل" والوں نے بتایا ہی نہیں کہ کالم نگار پر کیا گزری۔ اس گزران کی داستان سناتے سناتے تو اب دل سُن ہو چکا ہے۔ مصیبت کا ایک اک سے احوال کہنا، مصیبت سے ہے یہ مصیبت زیادہ۔
کیسے کیسے لوگ تھے کہ دل کے دریچوں سے زندگی میں در آئے۔ معصوم بچپن کے ننھے منے ہمجولیکہ جن کو کھیلنے ہی سے کبھی فرصت نہ ملتی تھی۔ کھلنڈرے لڑکپن کے شوخ ساتھی۔ جوانی دیوانی کے دلدار۔ دنیائے شعر و ادب کے ہم ذوق۔ پسندیدہ شعرا، پسندیدہ مصنفین اور دل و دماغ دونوں کو متاثر کر ڈالنے والے جید صاحبانِ علم۔ فہرست طویل ہے۔ مگر یہ سب کتابِ زیست کے مختلف ابواب ہیں۔ ہر باب کہیں نہ کہیں ختم ہوا۔ پَر ایک ہستی ایسی تھی جو شریکِ زیست ہوئی تو کتابِ زیست کا باب نہیں، خود کتابِ زیست بن گئی۔
ہمارا نکاح حضرت مولانا شاہ احمد نورانی علیہ رحمہ نے پڑھایا تھا۔ جب رشتہ طے ہوگیا تو ایک شوخ و شنگ و شریر بھتیجی نے شیخی اور شوخی سے کہی ہوئی بات کو بَر آتے دیکھ کر کہا: "چچا! آپ کی ایک تمنا تو پوری ہوئی۔ آپ کی ہونے والی بیوی سچ مچ حسن کی پری ہے"۔ یہ وہی بھتیجی تھی جو قبل از نکاح آتے جاتے شرارتی لہجے میں ملّی نعرے لگایا کرتی تھی: ربِّ کعبہ، ربِّ کعبہ! نصرت بھیج، نصرت بھیج! ، حسن کی پری نے باقی تمنائیں بھی پوری کر دیں۔ شعر و افسانہ کے پُر افسوں اسباق میں ہم سبق بنی۔ تحریکی اور انقلابی سرگرمیوں میں ہم قدم ہوئی۔
سیاحت کے شوق کی تکمیل میں بصد شوق ہم سفر رہی۔ ہم دونوں نے دنیا کے کئی ممالک کے سفر کر ڈالے۔ لندن سمیت برطانیہ کے مختلف شہروں میں گھومے۔ انگلستان کی جنوب مغربی کاؤنٹی ڈے وَن، (Devon) کے حسین دارالحکومت ایکسیٹر میں نہ صرف ایکسیٹر یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کا دورہ کیا بلکہ دریائے ایکسے کے کنارے ٹہلتے ہوئے جو دلچسپ واقعات پیش آئے وہ اکثر مزے لے لے کر سنائے جاتے رہے۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایفل ٹاور کی چوٹی سے اُتر کر ہم گردو نواح میں بس یوں ہی پیدل مٹر گشت کرتے رہے۔ شانزے لیزے پر چہل قدمیاں کیں۔ وہیں پیرس کی ایلزبتھ اور الجزائر کی عائشہ سے دلچسپ مکالمے ہوئے (جنھیں یہ کالم نگار پہلے ہی کہیں لکھ چکا ہے)۔
توپ قاپی عجائب گھر میں تبرکات دیکھنے کا شوق ہمیں ترکی لے گیا تو استنبول کا چپہ چپہ چھان مارا۔ اکثر اسفار کے بعد ہم ارضِ مقدس چلے جاتے، حرمین الشریفین میں تہجد گزاریاں ہوتیں۔ سری لنکا پہنچے تو پیرادانیہ سے لے کر کولمبو تک، جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔ جب بھی کسی غیر ملکی سفر کا منصوبہ بنایا جاتا وہ خوشی سے گُنگُنا اُٹھتی: "مرے دل مرے مسافر، ہوا پھر یہ حکم صادر، کہ وطن بدر ہوں ہم تم"۔ پاکستان کی سیاحت کی داستان الگ ہے۔ وہ خیال و عمل کے سب موسموں کی ساتھی تھی۔ کتابِ زیست کی ہر ہر سطر کی شریک تھی۔
فکاہیہ کالموں کے کئی دلچسپ موضوعات اُسی کے تجویز کردہ ہوتے۔ "یومِ محنت" اور "ماسی کے مساوی حقوق" جیسے انتہائی مقبول کالم اُسی کی عطا تھے۔ کچھ کالموں میں جو ازدواجی مکالمات، ملتے ہیں، اُن میں اُسی کالہجہ تھا۔ دل ہی کی نہیں، گھر کی بھی ملکہ تھی۔ اُس کا دسترخوان وسیع تھا۔ اُسے ادراک تھا کہ ہم دونوں کا خاندان اور برادری وسیع ہے۔ شوہرِ نامدار کا حلقۂ احباب اور حلقۂ ملاقات بھی بڑا ہے۔ عزیزوں، رشتے داروں، پی آئی اے کے ساتھیوں، صحافی دوستوں، ادیبوں، شاعروں، تحریکی رفقا اور یونیورسٹی کے شاگردوں ہی کی نہیں، اجنبی مداحوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی لگا رہتا۔ سب کی میزبانی خندہ پیشانی سے کرتی۔ بعض بے تکلف دوست فرمائش کرکے بھابی، کے ہاتھوں کی بنی چٹپٹی بریانی کا چٹخارا لینے آتے۔ درسِ قرآن کے بہانے کبھی محلے کی خواتین کی دعوت ہوتی، کبھی لڑکیوں کی، کبھی بچیوں کی۔
بڑی بیٹی کی شادی 2016ء میں ہوچکی تھی۔ ابھی 26دسمبر 2022ء کو سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی تھی۔ دوسرے شہروں سے آئی ہوئی 35خواتین اور چند حضرات گھر میں مقیم تھے۔ سب کا خیال بڑی خوبی اور خوش اُسلوبی سے رکھا۔ آخری میزبانی محترمہ نے خود اپنے شوہر کی فرمائی۔ ہفتہ 7جنوری 2023ء کی شب پُر تکلف عشائیہ تیار کیا۔ احسان دھرا کہ "آج میں نے آپ کو افغانی قورمہ کھلایا ہے"۔ بہت لذیذ تھا۔ کھلاپلا کر حسبِ عادت کراچی، لاہور، نیویارک اور کئی دوسرے شہروں کے اعزہ سے فون پر باتیں شروع کر دیں۔ آدھی رات تک خاتون آدھے خاندان کی خیر خیریت معلوم کر چکی تھیں۔ صبح فجر سے پہلے جگادیا کہ سینے میں درد اُٹھ رہا ہے۔
نمازِ فجر ادا کرکے آیا تو تکلیف بڑھ چکی تھی۔ اسپتال جانے کو تیار نہ تھیں۔ کہتی تھیں اسپتال کی موت بڑی اذیت ناک ہوتی ہے۔ مشینیں موت کو مزید تکلیف دہ بنا دیتی ہیں۔ نہیں مانیں تو بیٹے کو جگاکر کہا کہ گاڑی نکالو اور اپنی امی کو اسپتال چلنے پر آمادہ کرو۔ بیٹے کی بات مان لیتی تھیں۔ گھر میں کام کرنے والی کو فون کرکے اُسی وقت آنے کو کہا، وہ غریب فوراً آپہنچی۔ خود چل کر گاڑی میں بیٹھیں اور اُسے ساتھ بٹھایا۔ راستے میں غنودگی طاری ہوگئی۔ اسپتال پہنچے تو چند ہی لمحوں میں لیڈی ڈاکٹر نے خبر سنا دی کہ پندرہ منٹ پہلے وفات پاچکی ہیں۔ اللہ نے رستے ہی میں اسپتال کی اذیت ناک موت سے بچا لیا تھا۔ آخری خواہش پوری کر دی تھی۔ خود کسی مشینی اذیت میں مبتلا ہوئیں نہ متعلقین کو اذیت دی۔
نصرت کا سب سے نمایاں وصف اُن کی صلہ رحمی تھی۔ جو رشتے رحمِ مادر، کے توسط سے بنتے ہیں، ان کو جوڑ کر رکھنا صلہ رحمی، کہلاتا ہے۔ مراد: اقربا سے حسن سلوک کرنا۔ اس فن میں طاق تھیں۔ میرے چھوٹے بھائی کی خوش دامن فوت ہوئیں تو فوراً اُن کے گھر پہنچ گئیں اور میت کو غسل دینے کا کام سنبھال لیا۔ تب انکشاف ہوا کہ موصوفہ کو یہ فرضِ شرعی ادا کرنے کا ڈھنگ بھی آتا ہے۔ ایک اور نمایاں وصف اُن کی فطری اور ہمہ وقتی مسکراہٹ تھی۔ بچپن ہی سے ہنسوڑ تھیں۔ جب دیکھیے ہونٹوں پہ ہنسی آئی ہوئی سی۔ شایدایسے ہی پُر تبسم ہونٹوں کے متعلق انور شعورؔ نے کہا تھا:
صرف اُس کے ہونٹ کاغذ پر بنا دیتا ہوں میں
خود بنا لیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہ
تفصیل کا یہ محل نہیں، مگر سب سے بڑا صدمہ یہ ہے کہ ایک صدمے نے دو برس پہلے اُس کے ہونٹوں سے ہنسی اور منہ سے مسکراہٹ چھین لی تھی۔ یہ صدمہ بھی صلہ رحمی کا صلہ تھا۔ دھچکا اُن رشتوں سے پہنچا جن پر بہنوں کو بڑا مان ہوتا ہے۔ دھکا اُن رشتوں نے لگایا کہ دیارِ دل میں بہت احترام تھا جن کا۔ عقیدت کے سنگِ مرمر سے بنے ہوئے بت کانچ کے برتن کی طرح کرچی کرچی ہوگئے تو سادہ دل عقیدت مند بھی ٹوٹ پھوٹ گئی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران میں کبھی ہنسانے کی کوشش کی تو ذرا سا مسکرا دیں پھر وہی کیفیت۔
ابھی چند روز قبل توجہ سے دیکھا توجی دھک سے رہ گیا۔ چھوٹی بیٹی کی شادی میں جتنی تصویریں کھینچی گئی ہیں اُن میں سے کسی پر مسکراہٹ کا سایہ تک نہیں۔ سپاٹ چہرے پر کرب ہے۔ موت تو مقررہ وقت پر اور مقررہ جگہ پرہی آتی ہے۔ جس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ اس حقیقت پر اگر پختہ ایمان نہ ہوتا تو شاید زبانِ خلق کی طرح ہماری زبان بھی یہی کہہ رہی ہوتی کہاس اذیت ناک صدمے نے بالآخرنصرت کی جان ہی لے لی۔
شہر شاداب اسلام آباد کےH-11 قبرستان کی خاک میں اُس شب یہ دُکھی امانت دھر دی گئی۔ پلاٹ نمبر 29قبر نمبر 72۔ بقولِ انورؔ مسعود:
خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سپردِ خاک کیا
سُونے گھر میں اب فقط یہ سوگوار ہے، بیٹا ہے اور بوڑھی والدہ۔ سارا گھر بھرا ہوا ہے، لیکن ہر شے خالی ہے۔ کمرہ خالی، بستر خالی، صوفہ خالی، کرسی خالی، مطبخ خالی، بیٹھک خالی، آنگن خالی۔ پوچھنے والو! کیا پوچھتے ہو؟ گھر ہی نہیں، دل بھی خالی ہوگیا ہے!

