ایک کالم محققین، معلّمین اور مصلحین کے نام

الحمد اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے محترم عارف قریشی صاحب کا بہت بہت شکریہ کہ اُنھوں نے پندرہ منٹ سے پچپن سیکنڈ کم دورانیے کا ایک بصریہ ارسال فرمایا۔ اس بصریے میں متحرک عکاسی ہے اُردو زبان کے دو دانشوروں کے مکالمے کی۔ مکالمے کا آغاز کرتے ہیں ڈاکٹر عابد سیال، جو ہمارے عہد کے عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اُردو کے معلّم و محقق بھی ہیں۔ ڈاکٹر سیال نے یہ مصاحبہ اور مکالمہ ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ سے کیا ہے۔ ڈاکٹر ناشادؔ بھی ہمارے ملک کے ایک معروف شاعر، استاذ الاساتذہ اور اُردو زبان کے محقق ہیں۔
در اصل ڈاکٹر عابد سیال یو ٹیوب پر "ادارۂ اُردو" کے نام سے ایک چینل چلارہے ہیں۔ اس چینل کا ایک سلسلہ "ایک سوال" کے عنوان سے چل رہا ہے۔ مذکورہ بصریہ اُسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ڈاکٹر عابد سیال نے آغازمیں جو طویل سوال کیا ہے، اُس سوال کی طوالت معروف ماہر ابلاغیات جناب کامران خان کے سوالات کی طولانیوں کو مات کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے سوال میں سے فقروں کے فقرے نکال دینے کے باوجود تلخیص خاصی طویل ہوگئی ہے۔ یہ تلخیص بھی ہم اُنھیں کے الفاظ میں پیش کررہے ہیں۔ سوال کچھ یوں تھا:
"ہم اپنے ماحول میں بہت سی باتیں اپنی زبان درست کرنے کے حساب سے سنتے رہتے ہیں، یعنی مائنڈ یور لینگویج، وہ والا بھی اور جو زباں بگڑی تو بگڑی تھی۔ یعنی ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اُسے زبان کے کچھ اُصولوں کا زیادہ پتا ہے اورجو دوسرا ہے، جو چھوٹی چھوٹی غلطیاں کسی کتاب میں پڑھ لی ہے، کسی رسالے میں پڑھ لی ہے، کسی اخبار میں کوئی ایک مضمون چھپ گیا، کسی نے کوئی ایک بات کر دی کسی تناظر میں تو اُتنی بات یاد رکھ کے ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ دوسرا غلط زبان بول رہا ہے اور ایک لسانی درستی کا، جس طرح ہم اور معاملات کو درست کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں، دوسروں کی اصلاح کی، تو لسانی درستی کا بھی یہ معاملہ ہے اور اس لسانی درستی کے عمل کے لیے جو حوالہ لاتے ہیں وہ حوالہ لاتے ہیں لغات سے کہ فلاں لغت میں ایسا لکھا ہواہے۔ تو لسانی درستی اور لغت پرستی میں کوئی فرق ہے کہ نہیں؟"
سوال مختصرسا تھا کہ لسانی دُرستی اور لغت پرستی میں کوئی فرق ہے کہ نہیں؟ ، مگر تمہید طولانی ہوگئی۔ مختصر گوئی کی خوبی اپنانے کا مشورہ میرؔ صاحب تو کب کا دے چکے تھے کہ"عیبِ طولِ کلام مت کریو"پھر بھی ہمارے اکثر ماہرینِ ابلاغیات اسی اندازِ سخن کے خوگر ہیں۔ ڈاکٹر عابد سیال نے اچھا کیا کہ یہ سوال اُٹھادیا۔ ابلاغیات کی دُنیا میں اُردو زبان کے ساتھ جواسرائیلی سلوک، ہو رہا ہے، اُس کو دیکھنے کے باوجود بہت سے ذہنوں میں سوال اُٹھ رہا ہے کہ آخر لسانی دُرستی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جو جیسے بول رہا ہے اُسے بولنے دیجے، بکنے دیجے۔ اس نقطۂ نظر کے حامی بیش تر وہ لوگ ہیں جن کی اپنی اُردو اچھی نہیں اور اب اُن میں اپنی اُردو اچھی کرنے کی سکت بھی نہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی اس نقطۂ نظر کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں جن کا فرضِ منصبی ہی طلبہ کو اُردو کی تعلیم دینا ہے۔ تو جنابِ من! اگر لسانی دُرستی غیر ضروری شغل ہے تواس کی تعلیم دینے کی کیا مار آئی ہوئی ہے؟ ہمارے ملک میں اُردو کے جو گنے چنے چند اَساتذہ باقی رہ گئے ہیں، فارغ کر دیجے اُنھیں بھی۔
استاذ الاساتذہ ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ نے اس بصریے میں جو باتیں بتائی ہیں اُن میں سے اکثر باتیں ہمارے ملک کے محققین، معلّمین اور مصلحین کے لیے چشم کُشا ہیں۔ بقول منیرؔ نیازی"عقل والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت"۔ مثلاً:
"زبان کوئی جامد چیز نہیں، زبان ہر لحظہ بدلتی ہے، ہرآن بدلتی ہے اور یہ جو اس کا بدلنا ہے، یہ اس کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے"۔
"ایک تو دیکھنا یہ ہے کہ لسانی درستی کون کر رہا ہے؟ خود اُس کی لسان کا کیا عالم ہے؟"
"اگر واقعتا زبان کا وقوف رکھنے والا کوئی آدمی ہے اور واقعتا اُس کا مقصد زبان کو بہتر کرنا ہے تو وہ بتائے، کوئی حرج نہیں ہے، اُسے بتانا چاہیے، وہ زبان کا سفرجانتا ہے، اس کے پاس سلیقہ ہے"۔
زبان کو برتنے کے سلیقے پر ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ نے "کسی کا خوب صورت شعر" بھی سنایا کہ
لفظ کے محملِ زرتار میں خوبانِ خیال
کہیں مستور، کہیں چہرہ کُشا ہوتے ہیں
ہم نے سید عابد علی عابدؔ کی ایک غزل میں یہی شعر یوں پڑھا تھا:
لفظ کی بزمِ پُر اسرار میں خوبانِ خیال
کبھی مستور، کبھی چہرہ کُشا ہوتے ہیں
بات یہ ہے کہ آدمی اچھا شاعر ہو اور کسی کا شعر بھول جائے توخود ہی اُس کی طرف سے اُس کے شعر سے اچھا شعر کہہ لیتا ہے۔
لسانی دُرستی کے باب میں ڈاکٹر ناشادؔ نے کیسی پتے کی بات کہی ہے کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ لسانی درستی کون کر رہا ہے؟ خود اُس کی لسان کا کیا عالم ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ "دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا" جیسی قدیم ضرب المثل کو درست کرنے کی کوشش میں "دھوبی کا کتا" بھگا کر اُس کی جگہ خود "دھوبی کا کتکا" لے کر کھڑا ہوجاتا ہو۔ عربی لغت سے غلیظ، کے معنی دیکھ کر آجاتا ہو، پھر سب کو ڈانٹ بتاتا ہوکہ
"اُردو والو! تم اس لفظ کو بالکل غلط معنوں میں استعمال کر رہے ہو"۔
دنیا کی سب سے کم سن زبان ہونے کے باوجود اُردو انتہائی ترقی یافتہ زبان ہے۔ اس کے اپنے اُصول و قواعد ہیں۔ اپنے لغات ہیں۔ اُردو نے دوسری زبانوں سے جو الفاظ قبول کیے ہیں اُن میں سے کچھ الفاظ جوں کے توں لے لیے ہیں، تلفظ بھی وہی اور معنی بھی وہی، تاہم دوسری زبانوں کے کئی الفاظ ایسے ہیں جن میں سے کچھ کا تلفظ بدل گیا ہے، کچھ کا مفہوم۔ مثلاً اسی لفظ غلیظ، کو لے لیجے۔ اس کے معنی بدل گئے ہیں۔ عربی میں غلیظ، سخت اورگاڑھے کو کہتے ہیں، جو رقیق، کی ضد ہے، مگر اُردو میں یہ لفظ گندے، نجس اور ناپاک کے معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ غلیظ ہی سےغلاظت اور مغلّظات، بنالیا گیاہے۔ اسی طرح فارسی میں مرغ، پرندے کو کہتے ہیں۔ اُن کے ہاں ہر طرح کا پرندہ مرغ، ہے۔ گو کہ اُردو میں مرغ اِن معنوں میں بھی استعمال ہو رہا ہے(تُو اے مرغِ حرم اُڑنے سے پہلے پرفشاں ہوجا) مگر ہمارے ہاں عموماً ایک خاص گھریلو پرندے کو مرغ یا مرغا کہا جاتاہے اور اس کی مادہ کو مرغی۔ انگریزی میں ' 'Rail" کے معنی پٹری، کٹہرا، جنگلا اور شہتیریا کڑی وغیرہ ہیں۔ لیکن اُردو میں ریل، اُس گاڑی کو کہا جاتا ہے جو پٹری پر چلتی ہے اور چھکا چھک چلتی ہے۔ بعض لوگ وضاحتاًاسے ریل گاڑی، بھی بول دیتے ہیں۔ اُردو میں توریل کی پٹری، کی ترکیب بھی رائج ہے، جسے انگریز سنے تو سنتے ہی ریل کی پٹری پر لیٹ جائے۔
حضرتِ جوشؔ ملیح آبادی ایک دن اجمیر کی طرف سے جے پور جارہے تھے کہ رستے میں ایک "جنگل کی شہزادی" کو دیکھ کر پٹری سے اُتر گئے۔ جوشؔ صاحب نے خود بڑے جوش و خروش اور تفصیل سے اس معاشقے کا احوال سنایا ہے:
پیوست ہے جو دل میں وہ تیر کھینچتا ہوں
اِک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں
صاحبو! صورت یہ ہے کہ دیگر زبانوں کے لغات کی پرستش اُردو کا مزاج نہیں۔ اُردو کا اپنا مزاج ہے۔ اس کی دل کشی، اس کی شیرینی، اس کی گھلاوٹ اور اس کی جامعیت اپنی خوش مزاجی کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا اُردو کے مزاج کے خلاف جب کوئی چیز آتی ہے تو کھٹکنے لگتی ہے۔ تب ہی لسانی درستی، کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مثلاًجس بصریے سے اس کالم کا آغاز ہوا ہے اُس میں سے نمونتاً صرف دوجملے:
"لغت نہیں اَپ ڈیٹ ہوا"، "لغت کو آپ ڈیٹ کرنے والے جو ادارے ہیں اور جو اِنڈی وی جؤَل مرتبین ہیں، "وغیرہ، وغیرہ۔
آپ خود فیصلہ کیجیے کہ اَپ ڈیٹنگ اور انڈی وی جؤلی ٹی، کو لغت پرستی کا نام دیا جائے گا یاسنتے ہیلسانی دُرستی، کا کام کیا جائے گا؟

