Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Abdullah Tariq Sohail
  3. Survey Se Aasmani Sachai Ki Taied

Survey Se Aasmani Sachai Ki Taied

سروے سے آسمانی سچائی کی تائید

شوبز کی ایک محترمہ عفت عمر صاحبہ نے کہا ہے کہ عمران خان نے عوام کے خواب چکنا چور کر دیے۔ ایک ٹی وی کے شو میں بطور مہمان انہوں نے فرمایا کہ حالات اتنے خراب تو ضیاء الحق اور مشرف کے دور میں بھی نہیں تھے۔ ایک سروے کرنے والے ادارے نے اپنے تازہ سروے میں بتایا ہے کہ 87فیصد عوام کے خیال میں پاکستان نیچے جا رہا ہے۔ صرف چھ فیصد نے کہا کہ حالات ٹھیک ہیں، باقی سات فیصد نے رائے نہیں دی۔ بظاہر منفی سوچ پروان چڑھ رہی ہے اور مغالطہ آفریں بیانیہ زور پکڑ رہا ہے۔

محترمہ ہی کو دیکھ لیجیے۔ انہوں نے کہا کہ حالات کی اتنی خرابی تو ضیاء مشرف ادوار میں بھی نہیں تھی۔ مطلب یہ کہ وہ دونوں ادوار بھی خراب تھے لیکن اتنے خراب نہیں تھے جتنے اب ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ضیاء مشرف کے ادوار پاکستان کے پانچ سنہری ترین ادوار میں شامل تھے۔ پہلا سنہری دور ایوب خاں کا تھا، دوسرا یحییٰ خاں کا، تیسرے چوتھے کا ذکر انہوں نے کر دیا، پانچواں اب چل رہا ہے، جو اپنے سنہری پن میں باقی، سب سے ایک نہیں کئی کئی بازیاں لے جا چکا ہے۔

رہا سروے تو وہ اس "آسمانی" سچائی کی گواہی دے رہا ہے کہ پاکستانی عوام اس قابل نہیں کہ انہیں رائے دینے کا حق دیا جائے۔ کم سے کم 87 فیصد عوام تو قطعی اس قابل نہیں۔ ان سے رائے لینا یا انہیں ووٹ کا حق دینا سکیورٹی رسک ہے۔ پہلے سنہری دور کے بانی ایوب خاں نے سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا چنانچہ انہوں نے جمہوریت کو "ایبڈو" کر دیا اور بی ڈی سسٹم نافذ کر ڈالا۔ اس جمہوریت کی حقیقت مشرف نے SHAMکے لفظ سے بیان کی۔ اب یہ پانچواں سنہری دور "ایبڈو" کی گھسی پٹی مشق دہرانے کے بجائے "ای وی ایم" مشین کے ذریعے حقیقی جمہوریت نافذ کرنے کا ڈول ڈال چکا ہے۔ ڈول کے راستے میں البتہ "سسلین مافیا" زہریلے سانپ کی طرح پھن نکالے بیٹھا ہے۔ خدا وندانِ مہربان اس ڈول کی رکھشا کریں۔

٭چھ فیصد جو پاکستان کو اوپر جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں، یقین کیجیے یہی لوگ پاکستان سے مخلص ہیں اور اس سچائی کو سچ سمجھتے ہیں، جس کی دریافت ایوب خاں اوّل نے کی اور جس کی نشاۃ ثانیہ ایوب خاں ثانی "ای ایم وی" کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں۔ اب تو اس "ایم ای وی" کی ریہرسل بھی شروع ہو گئی ہے۔ پچھلے دنوں "نادرا" سے بہت سا ڈیٹا چوری ہو گیا۔ یہ الفاظ میرے نہیں، اخباری سرخی کے ہیں۔ اسے چوری کہنا نامناسب ہے، یہ ڈیٹا کی منتقلی ہے جو ای "ایم وی" کی اصلی کارروائی کی ابتدائی مشن ہے۔ اس ابتدائی مشن کو ابتدائے عشق سمجھے اور آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا والا مصرعہ دہراتے رہیے۔

٭آئی ایم ایف کی مہربانی سے وہ آڈٹ رپورٹ جاری ہو گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کورونا فنڈ میں مبلغ 40 ارب روپے کے گھپلے ہوئے(مہذب زبان میں بے قاعدگیاں) یہ رپورٹ آڈیٹر جنرل کے ادارے نے بہت پہلے بنا لی تھی مگر دبا دی گئی تھی۔ کس کے حکم سے؟ یہ پتہ نہیں۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ کورونا فنڈ کے محض ایک حصے کی انکوائری ہوئی تھی۔ مزید ہوتی ھل من مزید کا سوال بھی اٹھنا لیکن مزید چونکہ نہیں ہوئی، اس لئے سوال بھی نہیں اٹھا۔ آئی ایم ایف نے نئے قرضے کے لئے جو ہولناکی ترین شرطیں لگائی تھیں، ان میں اس آڈٹ رپورٹ کے جاری کرنے کی شرط بھی تھی۔ ڈٹ جانے والے مشیر ڈٹ گئے کہ یہ رپورٹ جاری نہیں ہوئی لیکن جب مشیروں کو پتہ چلا کہ پھر قرضہ نہیں ملے گا، تو پھر قرضہ نہیں ملے گا، تو جھٹ سے ڈھیر ہو گئے اور رپورٹ جاری ہو گئی۔ پردے اٹھانے والوں میں آئی ایم ایف کا ادارہ بھی شامل ہو گیا ہے۔

٭کورونا فنڈ کی رقم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی شامل کی گئی تھی۔ اس پروگرام کے تحت ماضی کی دو حکومتوں میں مستحق لوگوں کو امدادی رقم ان کے گھر ملا کرتی تھی۔"تبدیلی" نافذ کی گئی تو مستحقین کو قطاروں میں کھڑا ہونے کا حکم ملا۔ یہ نئی قسم کی عزت افزائی تھی۔ کچھ عرصہ سے اطلاعات آنے لگیں کہ یہ رقم مستحقین کو نہیں مل رہی۔ انہیں صرف دھکے مل رہے ہیں۔ یہ رقم کہاں جا رہی تھی؟ آئی ایم ایف کی رپورٹ نے اشارہ دیدیا۔ پتہ چلا کہ "اشرافیہ" کی جیب میں جا رہی تھی۔ اشرافیہ یعنی ووٹ بنک۔ ماشاء اللہ۔

٭سعودی عرب نے قرضہ بھی دیا ہے اور ادھار پر تیل کی ادائیگی کا اعلان بھی کیا ہے۔ قرضے پر سود کی شرح نہایت بلند پایہ ہے، یعنی چار فیصد اور ادھار تیل پر سود کی شرح بھی تقریباً اتنی ہی بلند پایہ ہے یعنی 3.8فیصد یعنی تقریباً چار فیصد۔ اتنا زیادہ کیوں؟ اس کے پیچھے کا خوشحال ہونا چھپا ہے۔ سعودی عرب کو پتہ چل گیا ہے کہ عمران خاں کے دور میں پاکستان بے انتہا خوشحال ہو چکا ہے، چار فیصد سود کی ادائیگی تو اس کے لئے ازحد آسان ہے۔ وہ زیادہ سود بھی مانگ سکتا تھا لیکن پھر پرانی مروّت یاد آ گئی ہو گی۔ خیر، کوئی بات نہیں۔ اگلے قرضے پر سہی۔

٭جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے مطالبہ کیا ہے کہ پانامہ لیکس اور اب پنڈورا لیکس میں بتائے گئے ناموں کو شامل تفتیش کیا جائے۔ غیر ضروری مطالبہ ہے۔ جو "عظیم مقصد" حاصل کرنا تھا، وہ "اقامہ لیکس" سے حاصل ہو گیا۔ اب غیر ضروری بیانات پر حاصل جمع خرچ کرنے سے کیا حاصل!

Check Also

Bushra Bibi Aur Ali Amin Gandapur Ki Mushkilat

By Nusrat Javed