Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Abdullah Tariq Sohail/
  3. Puchiye Mat, Sochiye Bhi Mat

Puchiye Mat, Sochiye Bhi Mat

پوچھئے مت‘ سوچئے بھی مت

سوچ رہا ہوں اب کے بعد حکومت پر تنقید نہیں کروں گا۔ کل ہی یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کے ایک بااثر ذمہ دار سے یہ پوچھنے کی گستاخی کر ڈالی کہ آخر کیا راز ہے، اس رمز پرروشنی ڈالئے کہ تین سال پہلے تک چینی، گندم اور کپاس برآمد کرتے تھے اور اربوں کماتے تھے اوراب یہ چیزیں درآمد کر کے اربوں روپے ادا کرتے ہیں۔ کھاد چوگنی قیمت پر بھی کیوں نہیں مل رہی، کھاد کو نایاب کر کے ترقی کا کون سا راستہ ڈھونڈا ہے۔

بس پوچھنا تھا کہ ذمہ دار صاحب نے یہ جواب دے کر چودہ طبق روشن کردیئے کہ تم بھارت کے ایجنٹ ہو، مودی کی زبان بول رہے ہو، کرپشن کی دن دہاڑے حمایت کر رہے ہو اور یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک اور صاحب سے یہ کہا کہ زمانہ کتنا بے رحم ہوگیا، لوگ بچے اغوا کرتے ہیں اور تاوان وصول کرنے کے باوجود بچہ نہیں، اس کی لاش واپس کرتے ہیں تو ناراض ہو گئے اور یہ فتوی جڑ دیا کہ تم آل شریف کی وکالت کرتے ہو، تم لفافہ جرنلسٹ ہو، ہم آل شریف کو کسی صورت این آر او نہیں دیں گے۔

٭تنقید چھوڑ دی تو کیا کروں گا؟ سوچا ہے حکومت پر نہیں اپنے ہم وطنوں سے سوال کروں گا۔ واضح رہے کہ میں نے ہم وطنو ںلکھا ہے، عزیز ہم وطنو نہیں لکھا، اس لیے میرے لکھے کو عزیز کے بنا ہی پڑھا جائے۔ تو اہل وطن سے یہ سوال ہے کہ ہم تین ملک ایک ہی خطے کے ہیں۔ تین چوتھائی صدی پہلے سب ایک ہی ملک بھی تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ عالمی منڈی میں بھارت اور بنگلہ دیش کے لوگوں کوذہین مانا جاتا ہے۔

ہمیں نہیں، ہمارے شہری کہیں چلے جائیں، ان سے دہشت گردی، منشیات، انتہا پسندی، غیرت کے نام پر قتل، بچوں سے زیادتی وغیرہ کے حوالے لوگوں کو کیوں یاد آ جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کے طعنے کیوں دیئے جانے لگتے ہیں۔ ایسے بہت سے سوال ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ یہ سوال کرنا بے کار ہے۔ میں خود بھی ایک ہم وطن ہوں۔ ان سب سوالوں کے جواب مجھے بھی نہیں ملے۔ دوسرے ہم وطنوں کو کہاں سے ملیں گے۔ جیسا میں ویسے میرے ہم وطن یا جیسے میرے ہم وطن ویسا ہی میں۔ البتہ اس سوال کو وہ حق ہم مجبوروں پر تہمت ہے خودمختاری کے مصرعے میں لپٹ کر طاق لاپتہ میں رکھا جا سکتا ہے۔

٭چلئے سوال بھی نہیں، ایک اعتراف کرنے میں کیا ہرج ہے اور اعتراف یہ ہے کہ ہم غور نہیں کرتے اور گھبرائیے مت، النفس و آفاق پر غور کرنے کی بات نہیں کر رہا، عام روزمرہ کے سماجی مشاہدات پر غور کرنے کی بات کر رہا ہوں۔ دنیا بھر میں کرتے ہیں بس ہم نہیں کرتے۔ کیا راز ہے؟ مثال کے طور پر ہم اس پر بھی غور نہیں کرتے یا غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے کہ آخر گلی محلے بازاروں میں واقع سیوریج کے مین ہولز سے ڈھکن کیوں چوری ہو جاتے ہیں۔ یہ سوال سمجھ دار سے کیجئے تو وہ پوچھنے والے کی عقل پر ہنس پڑے گا۔ اہم اور سنجیدہ امور کے بجائے کس نان سینس سوال کو اٹھا رہے ہو۔ لیکن اس ماں سے پوچھئے جس کا کم سن بچہ گٹر میں اس لیے گر کر مر گیا کہ اس کا ڈھکن کوئی اٹھا لے گیا۔

ایسے ماں باپ مرتے دم تک اس دوزخ میں جلتے رہیں گے کہ ہمارے بچے نے کیسے تڑپ تڑپ کر جاں دی ہوگی، مرنے سے پہلے کتنی بار ماں کو پکارا ہوگا، اکثر سسکی میں بھی ماں کہنے کی کوشش کی ہوگی۔ ڈھکن چور پکڑے نہیں جاتے۔ اس معمولی جرم کا بھی مافیا ہے جس کی پہنچ وہاں تک ہے جہاں ہر مافیا کی ہوتی ہے۔ کیا پولیس، کیا مقامی اہل سیاست، کیا ماتحت عدلیہ، کیا وکلا برادری جو معقول معاوضہ ملے تو قاتل کو معصوم بنانے کے لیے اپنی پوری علمی و فنی مہارت صرف کر ڈالتے ہیں۔ بات ان کی بھی درست ہے، حلوہ کھاتے ہی کہتے تو لوگ حافظ بنتے ہیں۔ ظلم سے لڑنے کی بات کتابوں میں دفن ہے اور سمجھدار گڑے مردے اکھاڑا نہیں کرتے۔

٭آپ ایک وفد بنا کر کسی ادارے کے مالک سے ملنے کی درخواست کیجئے، قبولیت پر جا کر اپنا مدعا بیان کیجئے۔ وہ ناراض ہو جائے گا کہ اس ذرا سی بات کے لیے میرا وقت برباد کیا۔ یہی ردعمل ہر ادارے کا وہ سربراہ کرے گا جس سے وفد اسی مسئلے پر بات کرے گا۔ ایسے ہی ذرا سے مسئلے اور بھی بہت ہیں۔ آ ئے روز ان گٹروں کی صفائی کرتے ہوئے خاکروب تھوک کے حساب سے مر جاتے ہیں۔ کسی بھی ذمہ دار سے یہ مسئلہ اٹھائیے، جواب ملے گا ارے وہ تو صفائی کرنے والے ہیں۔ یہاں ان کی کون سنتا ہے۔ یہی ذمہ دار بعدازاں کسی تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کی شاندار روایات بیان کرتے ہوئے بتائے گا کہ اسلام میں تمام انسان برابر ہیں۔ گورا ہو یا کالا، سیٹھ ہو یا مزدور سب کو یکساں حقوق ہیں، سب کی جان محترم ہے۔ کیا صفائی والے انسانوں کی فہرست سے خارج ہیں، محنت کشوں کی فہرست سے حتیٰ کہ جانوروں کی فہرست سے بھی۔

٭بچوں کی طرف دل دہلا دینے والے جرائم میں دل ہلا دینے والا اضافہ ہو گیا ہے۔ محض یہ لکھنے پر آپ کو آل شریف کا لفافے گروپ اور مودی کے یار کا خطاب مل جائے گا۔ لیکن بچوں کے قتل میں ایک نہیں دو تین، تین نہیں اور چار پانچ بھی نہیں، دس گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ ہر روز کسی معصوم کی لاش ملتی ہے۔ کبھی کسی گھریلو ملازم کی (جن کی عمر کی حد نیچے آتے آتے پانچ سال ہو گئی ہے) لاش ملتی ہے کبھی کسی مغوی کی۔ گوجرانوالہ سے سات سالہ بچے کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا اور قتل سے پہلے اس کی آنکھیں نکال لی گئیں۔ یہ کیا ہورہا ہے۔ پوچھئے مت، سوچئے بھی مت۔

Check Also

Qissa e Pareena

By Dr. Ijaz Ahmad