نواز شریف بھی کبھی سلیکٹڈ تھے
بلاول بھٹو زرداری کی بات مسلم لیگ والوں کو بری لگی لیکن ہے تو سچ۔ عصر رواں کے نوجوان سیاستدان نے گرجتے برستے نواز شریف کو بھی رگید ڈالا اور کہا کہ وہ بھی "سلیکٹڈ" تھے۔ بالکل وہ تھے لیکن یہ ماضی مرحوم کی بات ہے۔ 1985ء میں انہیں اشرافیہ والے بے نظیر کے مقابلے میں لے کر آئے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد بے نظیر کے ساتھ تھی لیکن ان کے مخالف بھی کم نہیں تھے جو نواز شریف کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ نواز شریف اس وقت کوئی لیڈر نہیں تھے، محض "سلیکٹڈ" تھے۔ بھٹو خاندان کے مخالف عوام منتشر تھے، اشرافیہ نے انہیں متحد کرنے کے لیے ایک چہرہ دے دیا۔ اب یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ "سلیکٹڈ" موقع ملتے ہی لیڈر بن گیا اور عوام کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ تب سے اشرافیہ اس کی جان کی دشمن ہے۔ نواز شریف نے سلیکٹڈ ہونے کا طوق 1990ء میں اتار پھینکا لیکن بلاول اپنے باوا جانی کو کیا کہیں گے جو ابھی دو ہی سال پہلے تک سنجرانی ماڈل کے چیف شمولیت کار بن گئے۔ بلاول نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی شراکت نہیں کریں گے۔ اچھی بات ہے لیکن دو سال کی تاخیر سے کہی۔ دو سال پہلے باوا جانی کو یقین دلایا گیا تھا کہ سنجرانی ماڈل کے نفاذ میں حصہ لیں، آپ کو "معقول" شراکت دی جائے گی۔ وقت آیا تو یہ معقول شراکت صرف سندھ تک محدود رہی۔ اب شہباز شریف کسی نئے سنجرانی ماڈل کی امید میں بڑے بھائی کو مائنس کرنے کے لیے ٹوپی بوٹ کا زور لگا رہے ہیں تو لگانے دیجیے۔ مزے کی بات ہے، بڑا بھائی "سلیکٹڈ" کلچر کے خلاف لڑ رہا ہے، چھوٹا مستقبل کا سلیکٹڈ ہونے کے لیے مچل رہا ہے۔
بلاول نے مزید فرمایا، سلیکٹڈ کو بیرونی ایجنڈے پر لایا جاتا ہے، انہی کے مطلب کی کر رہا ہے لیکن ٹھیکہ پورا ہو گیا ہے، ہو سکتا ہے ان کی اطلاع درست ہو لیکن ٹھیکہ ابھی پورا ہوا لگتا نہیں ہے۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ معیشت کی شرح 2.2 فیصد نہیں 1.9 ہے۔ ٹھیک لگتا ہے کہ اسے ایک فیصد پر لانے کا ہے ع اِکّو الف مینوں درکارایک کا عدد وحدت کی نشانی ہے، وحدت کا ہدف پورا کیے بغیر ٹھیکہ کیسے پورا ہو سکتا ہے اور اگر اس جدوجہد میں بات منفی تک جا پہنچے تو اور بھی اچھا ہے کہ "رحونیات" یا "رحونیت" میں نفی کا جو مقام ہے، وہ "رحونی" لوگوں سے مخفی نہیں۔ اثبات کی منزل نفی کامل کے بعد ہی ملا کرتی ہے۔ رہی بیرونی ایجنڈے والی بات تو ہم جیسوں کو پہلے ہی پتہ تھا، بلاول کو اب پتہ چلا۔
حکومت نے فرمایا، پنجاب پولیس چھوٹے موٹے ڈاکوئوں کو چھوڑے، بڑے ڈاکوئوں کو پکڑے۔ بڑے ڈاکوئوں سے مراد شاید وہ ہیں جنہوں نے حال ہی میں ایک سو چالیس ارب روپے کی واردات کی۔ واردات کو آٹا چینی کہا جاتا ہے کہ پاکستان تو کجا، پورے برصغیر بلکہ برصغیر بھی کیا، پورے ایشیا، بشمول فلپائن و انڈونیشیا کی تاریخ میں ایسی عظیم الشان اور یگانہ واردات پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ پنجاب پولیس کو "اذن" مل گیا ہے، دیکھیے، کب پکڑتی ہے لیکن توجہ طلب بات یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کے بقول یہ وارداتی ہستیاں اسلام آباد کے ایک بہت ہی مقامِ محفوظ و مقدس میں پناہ گزین ہیں۔ پولیس انہیں کیسے پکڑے گی، وہاں کا تو نام لینے سے ہی زبان جل جاتی ہے، نیب کے پر بھی جھلس کر چرمر ہو جاتے ہیں۔
حکومت نے ہفتہ گزراں میں متعدد انقلاب انگیز اقدامات کیے۔ مثلاً ملتان میں ماضی کے حکمران کے افتتاح کردہ ہسپتال کی تختی تبدیلی کر کے اپنی تختی لگا دی۔ انقلاب کا مطلب تبدیلی ہے چاہے یہ تختی بدلنے والی ہی تبدیلی کیوں نہ ہو۔ مزید یہ کہ کراچی میں پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب کا ٹھیکہ ایک بھارتی خاتون ڈاکٹر شوبھرا بھردواج کو دیا گیا۔ تخماتی نام ہے۔ گلوکارہ شوبھا گڑتے کی یاد دلاتا ہے۔ برصغیر میں پائیدار امن کے لیے اسے ننھا منا سا اقدام کہیے لیکن ہے تو یہ انقلاب انگیز۔ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں، پاکستان میں کوئی ٹھیکہ دینے کے قابل نہیں تھا۔ بھئی تھا یا نہیں تھا کا سوال ہے ہی کہاں، سوال تو پائیدار امن اور بہن بھائی چارے کا ہے۔ سب سے اہم اقدام یہ تھا کہ بڑھتی ہوئی قیمتیں "منجمد" کر دی گئیں۔
بادشاہ بنے تو پتہ چلا کہ عبنا ہے عیش تجمل حسین خان کیلئےعیش کی جگہ پروٹوکول پڑھیے اور تجمل حسین کی جگہ کچھ بھی پڑھ لیجیے۔
وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کی بھی سنئے، کیا فرما دیا: یہ فرمایا کہ جیسی قوم ہو، اللہ ویسے ہی حکمران دیتا ہے۔ اب یہ بھی فرما دیں، آپ کے حساب سے قوم "کیسی" ہے؟ ایسی کہ ویسی؟
نجاب کے ایک وزیر نے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ میں ایک صحافی کے قتل پر بلاول بھٹو کو شامل تفتیش کیا جائے۔ بجا ارشاد، اگرچہ مطالبے کرنا حکومت کا کام نہیں، وہ چاہے تو خود بلاول کو شامل تفتیش کر لے، پھر نیب کو حکم دے اور نیب کا کام ہر چند کہ قتل کی تفتیش کرنا نہیں لیکن فی زمانہ قانون ضابطے کی پابندی کا سوال ہی کہاں باقی رہ گیا۔ خیر، اب یہ بھی فرما دیجیے کہ ایک صاحبزادے بلکہ وزیر زادے کے کیس میں کسے شامل تفتیش کیا جانا چاہیے؟ ان صاحبزادے کے پریکٹیکل امتحان میں 14 نمبر تھے جو بڑھا کر 100 کر دیئے گئے؟ برسبیل تذکرہ، ماضی میں 30کے 33 ہوتے تو سنا تھا بلکہ 25 کے 35 ہوتے بھی دیکھا گیا لیکن 14 کے سو، اتنی لمبی چھلانگ پہلی بار مشاہدے اور مباصرے میں آئی۔ یوں ماننا پڑے گا کہ تبدیلی نہ صرف آ گئی ہے بلکہ بہت بڑے پیمانے پر آ گئی ہے اور ہر شعبے میں آ گئی ہے۔ معیار ہی نہیں، مقدار میں بھی پانچ چھ گنا اضافہ ہو گیا۔