محبت اور دکھ جانوروں کے
بی بی سی نے ایک دلچسپ سوال اٹھایا ہے۔ اس کے ویب پیج پر مضمون چھپا ہے، پوچھا گیا ہے کہ کیا پاکستان میں چڑیا گھر ہونے چاہئیں؟ مضمون نگار نے کراچی کی ایک نیک دل نوعمر خاتون عائشہ چندریگر کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو لوگوں کے تشدد کا شکار جانوروں کو اٹھا کر اپنے شیلٹر ہوم میں لے آتی ہیں اور انہیں روٹی کپڑا اور مکان کی بنیادی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ عائشہ چندریگر کا شیلٹر پاکستان کے لئے ایک عجوبہ تصور ہے کیونکہ پاکستان میں عوام اور خواص کی بھاری اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ جانوروں کے کوئی حقوق ہوتے ہیں نہ انہیں کھانا پانی دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہیں مار دینے یا اذیتیں پہنچانے میں کوئی خرابی نہیں کیونکہ وہ ایسی مخلوق ہیں جو حسیات سے محروم ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم یاد آ گئے۔ انہوں نے قدیم علماء کے حوالے سے فرمایا تھا کہ جانوروں میں روح نہیں ہوتی۔ قدیم علما کا یہ اصول قرآن نہ پڑھنے کی وجہ سے بنا۔ قرآن میں ہے کہ جملہ حیوانات بنی نوع انسان ہی کی طرح امت ہیں۔ قرآن پاک ہی میں چیونٹیوں اور ہد ہد کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ اس "اصول" کا نتیجہ ہے کہ یہاں کتوں کو کنٹرول کرنے والے ادارے کتوں کو ایک ایک گولی مار کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان زخمی کتوں کی جان نکلتے نکلتے 24گھنٹے تک لگ جاتے ہیں۔
سوال پیچھے ہی رہ گیا۔ چڑیا گھر دنیا میں کہیں بھی نہیں ہونے چاہئیں۔ حضرت عمرؓ کا دور ہوتا تو نہ جانے ان چڑیا گھر کے مالکان اور منتظمین کا کیا حشر ہوتا۔ ہاں تو بات یہ ہے کہ چڑیا گھر کہیں بھی نہیں ہونے چاہئیں اور بالخصوص تھائی لینڈ، پاکستان وغیرہ میں تو بالکل ہی نہیں ہونے چاہئیں۔ یہاں کے منتظمین جانوروں سے وہ سلوک کرتے ہیں جو ہٹلر نے سامیوں سے نسٹرلیشن کیمپوں میں کیا تھا۔ بی بی سی کے مضمون میں اسلام آباد کے ہاتھی کاوان کا ذکر بھی کیا گیا تو ذھن ہاتھی کی طرف نکل گیا۔ باقی موضوع کو چھوڑتے ہیں۔ ہاتھی کا ذکر بھی چھیڑتے ہیں۔
ذکر کیا، ایک واقعہ ہے، محیر العقول در محیر العقول۔ افریقہ میں ایک گورے کی دوستی ہاتھی سے ہو گئی۔ دوستی ہونے کا قصہ الگ ہے۔ دوستی بڑھتی گئی۔ گورا جنگل میں جاتا، ہاتھی اسے دیکھتا، لپک کر آتا اور سونڈ بڑھا کر اسے"جپھی" ڈال لیتا۔ کچھ ہی دنوں بعد اس ہاتھی کی "فیملی" بھی گورے کی دوست بن گئی۔ اس میں کئی ہاتھی ہتھنیاں اور ان کے بچے تھے۔ گورے نے جانوروں پر تحقیقات کے لئے جنگل میں گھر بنا رکھا تھا۔ محبت کا یہ رشتہ اتنا بڑھا کہ گورا کبھی گھر سے ہی نہ نکلتا، وہیں سے آواز لگا دیتا۔ ہاتھی فیملی پانچ میل دور ہوتی تب بھی آواز سن لیتی اور دوڑے دوڑے اس کے گھر پہنچ جاتی۔ ان کی آوازوں میں مسرت ہوتی، جوش ہوتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ محبت ہوتی۔ ہاتھی پانچ میل دور سے بھی آواز سن لیتے ہیں۔
تقدیر نے وار کیا۔ ایک دن گورے کا ہارٹ اٹیک سے، 61برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ ہاتھی فیملی دور جنگل میں تھی۔ انہیں پتہ نہیں کس پراسرار طور پر اطلاع ہو گئی دوڑی دوڑی آئی۔ ان کی آوازوں میں اضطراب تھا۔ گریہ تھا، دکھ تھا اور درد تھا۔ وہ آخری رسومات کی ادائیگی تک گھر کے باہر رہی اور سوگ مناتی رہی۔ عجوبہ بات۔ لیکن اس سے بھی عجوبہ بات ابھی رہتی ہے۔ وفات کو برسوں گزر گئے۔ ہاتھیوں کی یہ فیملی اس کی ہر برسی پر اس کے گھر برسہا برس تک آتی رہی۔ ایک سوال یہ کہ کیا ہاتھیوں کے پاس بھی کیلنڈر ہوتا ہے؟ دوسرا سوال، ان کا غم بھی برسوں پر محیط ہوتا ہے۔
٭یہ واقعہ نیشنل جیوگرافک کی ڈاکیومنٹریWild daze (صدمہ وحشت) میں دیکھا۔ فلم جانوروں کے غیر قانونی اور ظالمانہ شکار کے بارے میں بنائی گئی ہے۔ اس میں حکمرانوں اور سرکاری ملازموں کی کرپشن کا بھی ذکر ہے، جو مافیائوں کو شکار کی اجازت دیتے ہیں۔ فلم میں ہاتھیوں کے شکار کی خوفناک منظر کشی کی گئی ہے۔ ہاتھیوں کے قبیلے کے قبیلے مار دیے جاتے ہیں۔ انہیں ہر طرف سے گھیر لیا جاتا ہے اور چن چن کر مارا جاتا ہے۔ بچوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ازراہ رحم نہیں بلکہ اس لئے کہ ان کے دانت Ivoryتو ہوتے نہیں، گولی ضائع کرنے کا فائدہ۔ چھوٹے چھوڑے بچے اپنی مردہ مائوں کے جسم سے چمٹے رہتے ہیں اور کئی دن بھوک پیاس غم اور صدمہ کے گزار کر تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں یا دوسرے جانور انہیں کھا جاتے ہیں۔ سوائے ان خوش قسمت بچوں کے، اطلاع ہونے پر، جنہیں ریسکیو والے لے جاتے ہیں۔
٭نیشنل جیوگرافک والے اکثر جانوروں کے کسی ایک خاندان یا ایک جانور کو فوکس کر کے اس کی پوری زندگی یا زندگی کا ایک حصہ فلماتے ہیں۔ یوں فلم بندی کئی برس جاری رہتی ہے۔ عملہ فاصلے سے ہمیشہ اس جانور یا گروہ کا تعاقب کرتا رہتا ہے اور طاقتور کیمروں سے واقعے کی پوری تفصیل دکھاتا ہے۔ ایک اور ڈاکیو منٹری ایک شیرنی "ملکہ" کے بارے میں ہے۔ شیروں کا ایک خاندان ہے، دوشیر اور شیرنیاں اور ان کے تین بچے۔
شیر شکار پر جاتے ہیں اور بچوں کو اکیلا چھوڑ جاتے ہیں۔ لکڑ بھگوں کا ایک غول آتا ہے اور دو بچوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے، ایک بچہ رہ جاتا ہے جس کا نام فلم والوں نے ملکہ رکھ دیا۔ غمزہ ماں بہت صدمے میں ہے۔ خاندان کسی دوسری جگہ منتقل ہو جاتا ہے۔ ملکہ کی ماں اپنے باقی دو بچوں کی موت کو نہیں بھلا پاتی۔ کئی ماہ تک وہ رہ رہ کر روتی ہے، دردناک آہ و بکا سن کر اسے تسلی دیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ اس کی آنکھیں خشک ہو جاتی ہیں اور خاموشی چھا جاتی ہے۔ ایسے ہزاروں واقعات جیو گرافک کی فلموں میں موجود ہیں۔ جانور انسانوں کی طرح تکلیف اور اذیت سے گزرتے ہیں، اپنے بچوں اور پیاروں کا غم تازہ رکھتے ہیں، صدمے اٹھاتے ہیں اور اسی طرح زندگی کا قافلہ رواں دواں رہتا ہے۔
جانور ویسی یہ ہمدردی کے مستحق ہیں جیسی کے انسان۔ چڑیا گھر انسانی ظلم کا ایک ادارہ ہے۔ جسے دنیا کے ہر ملک سے ختم ہونا چاہیے اور بہت سے ملکوں میں اسے ختم کیا بھی جا چکا ہے۔