لیلیٰ اور کدّو
وزیر اعظم کا خطاب نیم شبی رات کے اندھیرے میں ایک نئی تاریخ رقم کر گیا۔ ایک تاریخ 25جولائی کو بھی رقم ہوئی تھی۔ لیکن وہ نیم شب کا مرحلہ آنے سے پہلے پہلے ہی رقم ہو گئی تھی اور اسے خاں صاحب نے رقم نہیں کیا تھا۔ خیر یہ خطاب بشبی ایسا تاریخی تھا کہ مخالفوں نے تو خیر کرنا ہی تھا۔ ان کے اپنے چاہنے والے بھی عش عش کر اٹھے۔ کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نے یہ نادر روزگار خطاب محض گیارہ عدد اطلاعات مشیروں کی مدد سے کیا۔ عبقریت کی حد ہو گئی۔ خطاب نے لوگوں کے ذہنوں پر انمٹ نقوش ثبت کئے۔ سوشل میڈیا کے "سنجیدہ حلقوں " میں کمال کی پذیرائی ملی۔ کچھ نادر اعداد و شمار تھے جو الگ الگ مقامات پر آئے اور آپس میں حیرت انگیز"مطابقت" رکھتے تھے۔ یہ انکشاف اپنی جگہ اہم تھا کہ نواز شریف نے 24ہزار ارب ڈالر کا قرضہ لیا اورقرضہ سارے کا سارا ہڑپ کر لیا اس کی منی لانڈرنگ کر دی۔ یہ انکشاف دو سال قبل بنائی جانے والی ریاستی "جے آئی ٹی" کے لئے بھی شاکنگ تھا جو اپنی عالمگیر محنت کے باوجود اس کا سراغ نہ لگا پائی۔ صرف اقامہ دریافت کیا۔ ایک منفرد اعتراف بھی تھا جسے آپ شکوہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ فرمایا، اے قوم، کرپٹ عناصر کی پذیرائی کرنا بند کر۔ کرپٹ عناصر یعنی نواز شریف اورمریم نواز۔ قوم کی سراسر نادانی ہے کہ اس نے کرپٹ عناصر کی پذیرائی کی۔ خان صاحب جیسے "دیانتدار کی نہیں۔ حق تو یہ ہے کہ اس خطاب کی تعریف کسی عامی سے ممکن ہی نہیں۔ یہ کام تو بس حضرت مولانا طارق جمیل جیسے ابوالفضل ہی کے بس کا ہے۔ جنگ بدر واحد کے بارے میں جو ارشاد فرمایا، اس کی تصویب بھی وہی کریں گے۔ ٭٭٭٭٭ایف بی آر نے اعلان کیا ہے کہ ریڑھی چھابڑی والوں کی بھی رجسٹریشن ہو گی اور ان سے بھی ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ غور فرمائیے کیا منظر ہو گاجب چھابڑی والے چھابڑی میں سودے کے ساتھ کائونٹر مشین بھی رکھا کریں گے۔ کوئی آدھا پائو فالسہ خریدے گا، چھابڑی والا اسے بھی رسید دے گا۔ مہینے کے بعد ایف بی آر والے اس کی کائونٹر مشین دیکھ کر جتنا ٹیکس مانگیں گے وہ دے نہیں سکے گا اور سیدھا اندر۔ اب اس میں ہمت ہو گی تو کسی باکمال فنکار کی خدمات حاصل کر لے گا اور چھوٹ جائے گا ورنہ عمر بھر چھابڑی سمیت اندر ہی سڑتا رہے گا۔ کہیں چار عشرے پہلے یہ حکومت آئی ہوتی تو ہم اب تک خود "آئی ایم ایف" بن چکے ہوتے۔ ٭٭٭٭٭اقبال ٹائون کے ایک دکاندار سے کچھ دعا سلام کا سلسلہ ہے۔ تبدیلی کے پرجوش حامی تھے۔ کل اتفاقاً ملاقات ہو گئی پوچھا، تبدیلی کا کیا حال ہے۔ جواب میں انہوں پٹیالے کی پنجابی میں ایک ایسا لفظ منہ سے نکالا لفظ کیا تھا، بس گولہ ہی سمجھیے۔ ان کا بدلا ہوا موڈ دیکھ کر انہیں ایک واقعہ سنایا۔ سینما ابھی ہندوستان نہیں پہنچا تھا تو تمام چھوٹے بڑے شہروں میں تھیٹر ہوا کرتے تھے جن میں لوک کہانیاں اور دیومالائی قصے سٹیج کئے جاتے تھے پھر سینما آ گیا اور ان تھیٹروں کی آن بان پہلے جیسی نہ رہی لیکن یہ ختم نہیں ہوئے۔ سینمائوں کے شانہ بشانہ چلتے رہے یہاں تک کہ 1950ء کی دہائی تک بھی ان میں سے کچھ موجود تھے۔ ایسا ہی ایک تھیڑ لاہور میں تھا۔ قیام پاکستان سے ذرا پہلے اس میں لیلیٰ مجنوں کا سدا بہار قصہ دکھایا جاتا تھا۔ تھیٹر کے لئے اداکارائیں کم ہی ملا کرتی تھیں چنانچہ کسی نوعمر لڑکے کو وگ لگا کر، سستا میک اپ کر کے اور لڑکیوں کا لباس پہنا کر کام چلا لیا جاتا تھا۔ کی تیز روشنی میں کسی کو پتہ ہی کہاں چلتا تھا کہ لڑکی کے بھیس میں لڑکا ہے۔ بھاٹی دروازے کے اس تھیٹر میں لیلیٰ کا کردار ایک لڑکا "چنی" نام کا ادا کرتا تھا۔ یہ چنی بھیا بڑے موسیقار ماسٹر غلام حیدر کا چھوٹا بھائی تھا۔ تماشا لیلیٰ مجنوں کا خوب چل رہا تھا۔ خدا کا کرنا، ایک دن ایسا ہوا کہ چنی کے سر میں شدید خارش ہو گئی اور پھوڑے نکل آئے۔ بڑی پریشانی ہوئی۔ ڈاکٹروں یا حکیموں نے مرہم پٹی کے لئے استرے سے "فارغ البال" کر دیا یعنی ٹنڈ کر دی اور کہا کہ کئی دن علاج میں لگ جائیں گے۔ تماشے پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا کیونکہ چنی نے کون سا اپنی ٹنڈ دکھانی تھی پہلے کی طرح اس نے اب بھی وگ ہی لگانا تھی لیکن برا ہو اتفاق کا جو ایک سین میں "اتفاق" سے ہو گیا۔۔ سین یہ تھا کہ مجنوں لیلیٰ کی گلی میں آتا تھا۔ اس کی آواز سن کر لیلیٰ بالکنی پر آتی ہے۔ مجنوں صدا لگاتا ہے۔ لیلیٰ او لیلیٰ کہاں ہو تم، تم بن رہا نہ جائے۔ لیلیٰ یہ سن کر چار پانچ فٹ اونچی بالکنی سے چھلانگ لگاتی ہے اور مجنوں اسے بازئوں میں تھام لیتا ہے اور ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے، اس دن بھی یہی ہوا اس فرق کے ساتھ کہ لیلیٰ جیسے ہی کودی، اس کی وگ بالکنی میں اٹک گئی اور لیلیٰ "ٹنڈ" سمیت مجنوں کے بازئوں میں آ گری(یا آگرا) تماشائیوں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ مجنوں خود بھی بوکھلا گیا تھا لیکن اس نے معاملہ سنبھال لیا۔ دونوں ہاتھ آسمان کو اٹھائے اور بولا مولا لیلیٰ مانگی تھی یہ کدو تو نہیں مانگا تھا…واقعہ سننے کے بعد بہرحال تبدیلی کے اس تبدیل شدہ عاشق کا موڈ تبدیل ہو گیا۔