خوش آمدید محترم ڈینگی
یہ بات شیکسپئر نے تو نہیں، کسی اور نے کہی ہو گی کہ نج کاری کو کسی بھی نام سے پکارو، وہ نج کاری ہی رہے گی۔ پنجاب میں سرکاری ٹیچنگ ہسپتالوں کے بارے میں جو غریب پرور آرڈیننس آیا ہے، اس پر حکومتی ترجمان نے کہا ہے کہ یہ نج کاری نہیں، حالات بہتر بنانے کا اقدام ہے۔ حالات بہتر بنانے سے مراد وہی "غریب" پروری ہے۔ ہسپتالوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میںنجی لوگ لگائے جائیں گے۔ اس غریب پروری سے ان کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ تو یہ نج کاری ہی ہے۔ تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنی نج کاری کا نامپنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت نے ہسپتالوں کے بارے میں وہی ماڈل اپنایا جو پختونخوا میں تھا اور اس ماڈل کا خلاصہ آپ پختونخوا کے کسی بھی مریض سے پوچھ سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مفت اور سستا علاج بند، دس بیس لاکھ جیب میں ہیں تو ہسپتال جائو ورنہ پنجاب کا رخ کرو، پنجاب کا راستہ بھی بند ہو گیا۔ اب کہاں جائیں، سندھ یا آزاد کشمیر؟ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اس پالیسی کے بعد یہ ہسپتال بند ہو جائیں گے۔ چلئے، اچھا ہے، خس کم، جہاں پاک٭٭٭٭٭مسلم لیگ کے رہنما احسن اقبال نے بیان دیا ہے کہ حکومت قرضے کی ساری رقم ہڑپ کر گئی۔ زیادتی ہے۔ ایمان سے کہئے کہ کیا ساری رقم ہڑپ کر گئی؟ کچھ تو چھوڑا ہو گا۔ بہر حال تفنن برطرف، قرضوں کی مالیت ریکارڈ حد تک بڑھ گئی ہے اور سب کی تشویش محض اسی بات پر ہے اور جو زیادہ تشویش کی بات ہے، اس پر کسی کی نظر ہی نہیں، وہ یہ ہے کہ قرضے تو اتنے قسط کیسے دیں گے، دوسری طرف قرضے لوٹانے کی سکت بھی تو اتنی ہی کم ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ کمائیں گے تو قسط دیں گے، جب کمائی کی کھیتی ہی سوکھ رہی ہو تو قسط کے پیسے کہاں سے لائیں گے۔ مثال یوں ہے کہ فرض کیجئے، کسی صاحب نے پچاس ساٹھ لاکھ روپے قرضہ لے کر کاروبار شروع کیا۔ ماہانہ آمدنی چار پانچ لاکھ روپے ہونے لگی جس میں سے ایک لاکھ قرضے کی قسط ادا کرتے تھے۔ پر ہوا یہ کہ کاروبار مندا ہو گیا۔ آمدنی دو لاکھ کی رہ گئی، ایک لاکھ قسط دے کر ایک لاکھ بچے، پھر مندا اور بڑھا، کل آمدنی ہی ایک لاکھ رہ گئی۔ اب قسط دیں تو کیسے؟٭٭٭٭٭معاشی بحران کی ایک تازہ خبر یہ آئی ہے کہ ملک بھر میں سینکڑوں یوٹیلٹی سٹورز بند کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ خسارے میں جا رہے تھے۔ یعنی کامیابیوں کے تاج میں ایک اور سنہرے کا اضافہ۔ لیکن خسارے میں کون سا ادارہ ہے جو نہیں جا رہا ہے۔ خود سرکاری سٹیٹ بنک کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ہائی وے اتھارٹی، سٹیل ملز، پی آئی اے سمیت دس بڑے اداروں کا مجموعی خسارہ 622ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ سٹیل ملز کا خسارہ عبدالرزاق دائود کے دستِ شفقت کے بعد سے اور بڑھ گیا۔ حیرت تو پی آئی اے پر ہے۔ ایک دو وزیروں نے بڑے فخر سے کچھ ہی عرصہ پہلے بتایا تھا کہ پی آئی اے کو ہم منافع میں لے آئے ہیں۔ ایک دوخضر صورت دانشوروں نے بتایا تھا کہ شاہد خاقان عباسی اپنی ایئر لائن کے لیے پی آئی اے کو خسارے میں رکھ رہے ہیں۔ وہ تو کب کے گئے لیکن پی آئی اے کا خسارہ لگ بھگ 40ارب اور بڑھ گیا ہے اور یوں خسارے کی کل مالیت 406ارب ہو گئی۔ شیخ جی نے ریلوے کو درست ٹریک پر ڈال دیا اور اس محکمے کا خسارہ لگ بھگ پونے چار ارب روپے بڑھ گیا۔ ہائی ویز اتھارٹیز کا خسارہ بڑھ کر 33ارب 48کروڑ ہو گیا ہے۔ ٭٭٭٭٭نواز شریف نے جیل میں قید سخت و تنہائی کا سال بھر تو مکمل کر لیا۔ وہ تو ہے کچھ پوری نہ ہو سکی کہ چند ماہ ہی میں ہتھیار ڈال دیں گے اور میثاق اطاعت پر دستخط کر کے باہر چلے جائیں گے۔ بہت کہانیاں چل رہی ہیں کہ ڈیل ہو رہی ہے۔ وہ تجزیہ نگار جنہوں نے قصور کی زینب کے قاتل کے اربوں ڈالر کے بنک کھاتے ڈھونڈ نکالے تھے، رات بتا رہے تھے کہ بات چیت نئے سرے سے شروع ہے اور عجیب و غریب شرائط پر بات ہو رہی ہے۔ فرمایا کہ ان شرائط میں پیسے کی واپسی کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ پیسے کی واپسی کا ذکر تو پہلے تھا نہ اب ہے۔ البتہ ایک لطیفہ گردش کر رہا ہے کہ ایلچی حضرات پیشکش کر رہے ہیں کہ میاں صاحب کتنے پیسے لو گے، لے لو اور باہر چلے جائو۔ خیر، یہ تو لطیفہ تھا، اصل بات جس کا ان اینکر صاحب سمیت سب کو پتہ ہے، وہ یہ ہے کہ معاملہ کرپشن کا ہے نہ پیسے کا۔ گناہ کچھ اور ہیں جن کی سزا مل رہی ہے۔ مثلاً سی پیک، گوادر، سرمایہ کاری، خود انحصاری، امریکہ کی توحید میں چین روس کا شرک شامل کرنا اور اسی قسم کے دیگر مذموم ارادے۔ ٭٭٭٭٭کئی برس کی جبری رخصت کے بعد حضرت ڈینگی دھوم دھام سے تشریف لے آئے۔ صرف راولپنڈی میں ہزاروں کو اپنے سحر میں جکڑا۔ ماضی میں تشریف لانے کی ہر کوشش تب کی حکومت نے قبل از وقت اور بروقت سپرے کر کے ناکام بنا دی۔ اس بار حکومت نے سپرے کو بھی "ترقیاتی کام"سمجھ کر دفعہ دور کیا۔ چنانچہ واپسی کا راستہ کھل گیا۔ ماضی میں پختونخوا میں یہ وبا پھیلی تو بڑے صاحب پہاڑوں پر تشریف لے گئے اور وہاں سے اعلان فرمایا ڈرنے اور کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، موسم بدلتے ہی ڈینگی ختم ہو جائے گا؛چنانچہ اہل پنجاب بھی ڈریں نہ کچھ کریں، رت بدلنے کا انتظار کریں۔ جس کا مرنا لکھا ہے وہ تو مرے گا ہی، باقی کی خیر رہے گی۔