کاوہ اور ریاست
قومی اسمبلی میں وفاقی وزراء (خدا کی شان ہے) آفریدی اور مراد سعید کے درد بھرے خطاب سن کر یقین کیجیے۔ وہ ایک دریائی جانور یاد آ گیا جو کہا جاتا ہے کہ بہت ہینڈسم ہوتا ہے اور اس کے آنسو بھی بہت کیوٹ ہوتے ہیں۔ اکثر ایسے موقعوں پر اس ہینڈسم جاندار کے کیوٹ آنسوئوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ دونوں وزراء سانحہ ساہیوال پر سوگوار تھے اور سوگواری کا ماحول دوبالا کرنے کے لئے ریاستی اثاثے رائو انوار کا حوالہ بھی دے رہے تھے اور فریاد کر رہے تھے کہ آخر سابقہ حکومتوں نے اسے کیوں سزا نہیں دی۔ واقعی، کتنی درد بھری سچائی ہے۔ اب کوئی بے حیثیت قسم کا پاکستانی ان سے یہ پوچھنے کی جرات کر ہی کیسے سکتا ہے کہ حضور، عرصہ ہوا جب آپ اور آپ کی جماعت اسی "پیج" پر آئے تھے جس پر رائو صاحب پہلے ہی براجمان ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دونوں آگے پیچھے ایک پیج پر آئے تھے۔ مہان ہستی جب سپریم کورٹ پیش ہوئی تھی تو بصد احترام و ناز پوچھا گیا تھا۔ کیا رائو صاحب تشریف لے آئے؟ جی تشریف لے آئے ہیں۔ اضافی پروٹوکول کے ساتھ الوداع کہہ دیا گیا۔ ضرورت پڑی تو پھر یاد فرما لیں گے اور یہ ضرورت پھر کبھی نہ پڑی۔ عام پاکستانیوں کے دل پر تو رائو صاحب کی عظمت کا سکہ تو اسی روز جم گیا تھا۔ اور قبلہ آپ کو آئے ہوئے بھی اب چار نہیں پانچ نہیں، چھ ماہ پورے ہو گئے۔ آپ نے تو یہ بھی نہیں پوچھا، رائو صاحب تشریف لے آئے؟ ٭٭٭٭٭ رائو انوار قبلہ مدظلہ نے تو چار سو پانچ سو پاکستانی انجام کو پہنچائے تھے۔ نقیب اللہ محسود کا والد "کاوہ" کی طرح ڈٹ نہ جاتا تو اب تک یہ گنتی ایک ہزار سے اوپر جا چکی ہوتی۔ ایک رائو انوار اور بھی ہوا کرتا تھے، چودھری اسلم چار پانچ سو پٹھان کوڑا کرکٹ اور شاپر کاغذ چننے والے بچوں کو اکیلے انہی نے انجام کو پہنچایا، اس حد تک گئے کہ ان بچوں کی کمی پڑ گئی۔ شاید کراچی ان دنوں کوڑا کرکٹ کا ڈھیر بنا ہوا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو۔ افسوس کہ خود ایک بم کی نذر ہو گئے۔ اور یہ دو ہی کیا، امریکہ کے فضل و کرم سے ملک رائو انواروں اور چودھری اسلم جیسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے دسیوں ہزار شہری یہ معرکہ آرائی نگل چکی ہے۔ امریکہ ہی جانتا ہے کہ ان میں سے کتنے سچ مچ کے دہشت گرد تھے۔ کتنے بے گناہ جو محض شوق خون بہائی کی نذر کر دیے گئے۔ ابتدا پرویز مشرف کے دور سے ہوئی۔ یاد ہو گا ایک مدرسے پر بمباری ہوئی مشرف حکومت نے سرکاری اعلان جاری کیا، ایک کامیاب آپریشن میں سینکڑوں دہشت گرد مارے گئے۔ سینکڑوں ہارڈ کور دہشت گرد۔ قوم نے مان لیا۔ سرکاری اعلان کے ایک ایک حرف کو سچ مان لیا۔ بعد میں ریورپیں آئیں سب کم عمر بچے تھے۔ انسانوں کے بچے، ہم نے نہیں مانا! ٭٭٭٭٭ کاوہ کا ذکر آیا تو اس کی کہانی بھی دو سطروں میں دہرا دی جائے۔ آپ میں سے اکثر کو یاد ہو گی، لیکن شاید کچھ کو نہیں بھی یاد ہو۔ بادشاہ ضحاک کی ایران پر حکومت تھی۔ ریاست روز ایک نوعمر لڑکا کھا جاتی تھی۔ ماں باپ رو پیٹ کر رہ جاتے۔ ان کی فریاد سننے کے لئے کوئی عدالت تھی نہ ادارہ۔ روتے پیٹتے ماں باپ کی تصویر بھی کسی اخبار میں آتی تھی نہ ٹی وی چلتی تھی۔ کوئی جماعت ان کے حق میںبیان دیتی تھی نہ کسی کو دھرنا دینے کی اجازت تھی۔ ایک دن ریاست کاوہ نامی لوہار کے لڑکے کو پکڑ کر لے گئی اور کھا گئی۔ کاویانی کا دل پھٹ گیا۔ اس نے اپنی بھٹی کی دھونکئی پھاڑ ڈالی۔ اسے ڈنڈے پر علم کی طرح لگایا اور نعرے مارتا ہوا سڑکوں پر نکل آیا، پھر پتہ نہیں کیا ہوا، فریدوں کی حکومت آ گئی۔ کتابوں میں ساری کہانی لکھی ہے۔ کہانی جب بنتی ہے تو کوئی کوئی لکھتا ہے بہت کہانیاں بعد میں لکھی جاتی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ سرکاری پارٹی کے ایک صادق و امین رہنما محمود الرشید نے کہا ہے کہ ساہیوال کے واقعے کی جعلی ویڈیوز چل رہی ہیں۔ صادق و امین ہیں، بات تو ماننی ہی پڑے گی۔ پھر معاملہ جعلی ویڈیوز کا ہے جس کے بارے میں فنی مہارت پر پی ٹی آئی کی اجارہ داری ہے۔ بات تو اور بھی ماننا پڑے گی اور بات ماننے کا مطلب ایک ہی ہے کہ مرنے والے دہشت گرد تھے۔ ساری پی ٹی آئی کے بیانات کا بین السطور یہی ہے۔ عوام میں اشتعال کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہے کہ یہ پہلی حکومت ہے جو قاتلوں کے ساتھ"ایک پیچ" پر ہے۔ اشتعال کی بات تو پھر کبھی سہی، حیرت البتہ بلا جواز ہے۔ ٭٭٭٭٭ ویسے بھی ماننے کے باب میں ہم پرانے عادی ہیں۔ آمنا و صدقنا کہے بغیر چارہ بھی تو نہیں۔ برسہا برس گزرے، بے نظیر کی حکومت کے وزیر نصیر اللہ بابر تھے۔ انہوں نے کراچی حیدر آباد میں مہاجروں کے خلاف آپریشن کیا۔ ہزاروں نوعمر لڑکے مارے گئے۔ متحدہ والے جو گنتی بتاتے ہیں، وہ پندرہ ہزار کی ہے اور مبالغے والی ہے لیکن بہرحال کئی ہزار تو تھے، دو تین ہزار سے زیادہ۔ سرکار بتاتی تھی اور دائیں بازو کا پریس بھی کہ مرنے والے سبھی ٹارگٹ کلر تھے، را کے ایجنٹ تھے۔ سٹریٹ کرمنل تھے، فلاں تھے اور ڈھمکان تھے۔ ہم نے مانا، ایک ایک لفظ مانا اور خوش ہوئے کہ کراچی سے ٹارگٹ کلروں اور را کے ایجنٹوں کا صفایا ہو رہا ہے۔ ہم نے مانا اور خوش ہوئے اور بہت ہی خوش ہوئے۔ پہلے بھی ہر سرکاری ریاستی ہینڈ آئوٹ کو مانا، اب بھی مان لیتے ہیں۔ آئندہ کا البتہ کوئی پتہ نہیں۔ ٭٭٭٭٭ ایک سکالر نے لکھا ہے، عرب بہار کا انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ اس بہار کے اندر خزاں چھپی ہوئی تھی۔ کچھ اور کرنا چاہیے۔ کچھ اور؟ کاوہ کا انتظار؟ درفش کاویانی کا؟