جعلی آڈیو کے شغل پارے
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔ یہ پہلا مصرعہ ہے اور دوسرا کچھ یوں ہے کہ پردے اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔ آپ نے ٹھیک کہا کہ کیا بے جوڑ، کیا الٹا پلٹا کلام ہے، اس سے اچھا تو و ہ فلمی گیت ہے کہ ایک پردہ اٹھے، ایک پردہ گرے، بات پردے کی پردے میں رہنے دو، لیکن حضور ماجرا یہ ہے کہ وطن عزیز میں ان دنوں ہر شے الٹ پلٹ ہے، ایسی الٹ پلٹ کہ کبیرا دیکھ پاتا تو رونا بھول جاتا۔ کبیرا (بھگت کبیر) کسی بھی چیز کو الٹ پلٹ دیکھتا تو رو دیتا تھا، یہاں اس کے لیے مسئلہ یہ بن جاتا کہ کس کس چیز کو دیکھ کر روئے۔ یہاں بے روزگاری بڑھتی ہے تو اس عمل کا نام غریبوں کو اوپر اٹھانا رکھ دیا جاتا ہے۔
معیشت کا جنازہ جا رہا ہو تو کہتے ہیں معیشت پٹڑی پر چڑھ گئی ہے وغیرہ۔ اور پردے کی بات یہ ہے کہ اب پردے کے پیچھے کوئی بات رہی ہی نہیں۔ پردے اٹھ رہے ہیں، گرنے کی تو نوبت ہی نہیں آ رہی۔ اس ہفتے پردے کی ایک اور بات باہر آئی تو ہنگامہ سا برپا ہوگیا اور ساتھ ہی یہ ٹپ بھی نمودار ہوئی کہ مزید پردے اٹھنے والے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ موصوف کی آڈیو لیک ہوئی جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ اوپر سے حکم ہے، مودی کے یار کو سزا سنانی ہے اور اپنے یار کو جتوانا ہے۔ کسی اور صاحب کی آواز بھی سنائی دیتی ہے (صاحب کسی احتسابی دارالقضا کے منصف بتائے گئے ہیں) وہ کہتے ہیں کہ بیٹی کوسزا دینے کی تک تو نہیں بنتی۔ اس پر سینئر منصف فرماتے ہیں کہ کیا کریں، اوپر سے حکم ہے۔
٭فی الوقت اس حاضر سروس ہنگامے کی کہانی پیش نظر ہے۔ سینئر منصف نے فرمایا کہ یہ آواز ان کی نہیں۔ اگر ان کی نہیں تو پھر ہمزاد کی ہوگی؟ ان دنوں تسخیر ہمزاد کے قصے بھی عام ہیں۔ ایک وفاقی وزیر نے فرمایا کہ آواز تو انہی کی ہے لیکن ایڈٹ کی گئی ہے۔ کمال کی بات ہے۔ اوپر سے حکم ہے، سزا سنانی ہے، یار مہربان کو جتوانا ہے کے فقروں میں آگے پیچھے کیا ہو گا جس کی ایڈیٹنگ کی گئی ہوگی۔ جس فرم نے یہ آڈیو لیک جاری کی اس نے کہا کہ پوری فرانزک کرائی ہے، سو فیصد تصدیق کے بعد جاری کی ہے۔ پھر ایک سرکار نواز ٹی وی نے وہ دو فقرے سنا دیئے جو منصف صاحب کسی تقریر کے دوران ادا کر رہے ہوتے ہیں اور بتا دیا کہ آڈیو لیک جوڑ کر بنائی گئی ہے لیکن وہ فقرے تو سرکار نواز ٹی وی نے بتائے ہی نہیں کہ کہاں سے لیے جن میں سزا جزا کسی کو جتوانے اور بیٹی کو سزا دلوانے کا ذکر ہے، کیا منصف نے وہ فقرے بھی اس خطاب میں ادا کئے تھے، بہرحال، سودا چمک دار بنانے کی کوشش تو کی لیکن بکا نہیں، نصیب کی بات ہے۔
٭ایک طریقہ اور ایک ہی طریقہ یہ ہے کہ حکومت کسی اور امریکی یا برطانوی فرانزک ادارے سے تصدیق کرالے لیکن یہ تو اپن کا شیوہ ہی نہیں۔ جج ارشد ملک نے بھی اپنی لیک ویڈیو میں ایسی ہی بات کی تھی کہ مجھے بلیک میل کر کے حکم دیا گیا کہ یہ سزا سنانی ہے۔ تب بھی حکومت نے کہا تھا کہ جعلی ہے لیکن پھر فرانزک نہیں کرایا۔ تب نہیں کرایا تو اب کیوں کرائے گی؟
٭فرانزک کرانے کے بجائے حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ سینئر ریٹائرڈ منصف کا دفاع کرے گی۔ اچھی بات ہے لیکن کیوں؟ کیا منصف موصوف خود اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، شاید ڈیم کی تعمیر میں مصروف ہیں، اس لیے حکومت نے ذمہ داری اپنے سر لے لی لیکن پھر وہی سوال کہ کیوں؟ کیا موصوف حکومت کا سرمایہ ہیں، کیا وہ پی ٹی آئی کے رہنما ہیں؟
٭خبر، اب وہ قصہ بھی سن لیجئے۔ تو یہ قصہ ہے دو اڑھائی سال پہلے ساہیوال میں ہوئے ایک واقعہ کا (سانحہ لکھنے سے اندیشہ ہائے قرب و جوار سے جی ڈرتا ہے)۔ ایک بے گناہ فیملی کو برسر شاہراہ قتل کردیا گیا۔ قاتل ریاستی ادارے کے اہلکار تھے۔ سارے مارے گئے، ایک بچی بچ گئی، اسے باہر نکالا گیا اور بندوق تان لی گئی۔ قاتل کے ساتھی، دوسرے قاتل نے کہا، یہ تو بچی ہے، اسے کیا مارنا۔ پہلے قاتل نے کہا بچی ہے یا نہیں، اوپر سے حکم ہے تو مارنا ہی ہے۔ ملک بھر میں احتجاج ہوا تو وزیر اعظم نے جو گلف کے دورے پر تھے، فرمایا کہ وطن واپس آتے ہی قاتلوں کو عبرتناک انجام تک پہنچائوں گا، یہ میرا وعدہ ہے۔ اسمبلی میں خدا کو جان دینی ہے والے وزیر نے بھی یہی بات کی۔ پھر عبرتناک انجام یوں ہوا کہ قاتل پورے احترام اور وقار کے ساتھ بری کر دیئے گئے۔ لواحقین نے فریاد کی تو انہیں بتایا گیا کہ تمہیں بھی اوپر پہنچا دیں گے، تب سے کوئی چوں ہے ناچرا، جملہ راوی ہر طرح کا چین لکھتے ہیں۔
٭یہ ساہیوال کا قصہ بیچ میں آ گیا، شروع کی ایک بات تو رہ ہی گئی۔ مودی کے یار کو سزائیں اور نااہلیوں کے تمغے 2017ء میں دیئے گئے۔ اس سے ساڑھے تین سال پہلے جاوید ہاشمی نے سارا منظر نامہ بتا دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، اس طرح عدالتی مارشل لا لگے گا۔ نواز کو نااہل کر کے قید کی سزا دی جائے گی، پھر یار مہرباں کو الیکشن جتوا کے حکومت میں لایا جائے گا۔ جاوید ہاشمی تک آڈیو ویڈیو اڑھائی سال پہلے ہی کیسے لیک ہوکر پہنچ گئی تھی؟
٭آڈیو بہرحال جعلی تھی، امید بلکہ یقین ہے کہ حکومت اس کا فرانزک کرائے گی۔ چلتے چلتے وزیراعظم کو ان کے تازہ مطالبے پر خراج تحسین کہ ماضی کی جن حکومتوں نے قرضے بڑھائے، انہیں سزا ملنی چاہیے۔ اس میں ذرا سا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہ حال کی جس حکومت نے سب سے زیادہ قرضے بڑھائے اسے انعام ملنا چاہیے۔