Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Abdullah Tariq Sohail
  3. Hum Ne Kya Lekin Hum Bekhabar Thay

Hum Ne Kya Lekin Hum Bekhabar Thay

ہم نے کیا لیکن ہم بے خبر تھے

وزیر خزانہ اسد عمر نے بی بی سی کو انٹرویو دے کر ایک طرح سے پردہ کشائی کر ڈالی۔ فرمایا ہم نے آئی ایم ایف کے ہدایت نامے کا انتظار نہیں کیا اور خود ہی تیل گیس بجلی کے نرخ بڑھا دیے، روپے کی قیمت گھٹا دی اور سود کی شرح میں اضافہ کر دیا۔ اس لئے کہ یہ اقدامات ضروری تھے۔ یعنی سب کچھ "ہم" نے کیا کہ بشمول روپے کی بے قدری کے۔ ہدایت نامے کا انتظار اس لئے نہیں کیا کہ جانتے تھے کہ کیا ہدایات آنی ہیں ع"ہم جانتے ہیں وہ جو لکھیں گے جواب میں "چنانچہ سمجھداری سے کامل تابعداری کا مظاہرہ کیا۔ اچھی بات ہے۔ اب آپ فرمائیے، وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے ان بیانات کو اس انٹرویو میں کہاں "فٹ" کریں گے جو انہوں نے آٹھ دس دن پہلے دیئے تھے، جب روپے کی قدر میں گراں قدر بے قدری کی گئی تھی؟ وزیر اعظم نے فرمایا تھا، مجھے تو کسی نے بتایا ہی نہیں، مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا، مجھے تو ٹی وی دیکھ کر پتہ چلا کہ روپیہ ٹکے ٹوکری ہو گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے فرمایا، سٹیٹ بنک نے مجھے اور میں نے وزیر اعظم کو بتا دیا تھا کہ سٹیٹ بنک روپے کی قیمت کم کرنے والا ہے۔ ان دونوں بیانات کے تضاد کو نظر انداز کر دیجئے۔ قدر مشترک پر غور کیجئے اور قدر مشترک یہ تھی کہ روپے کی قیمت سٹیٹ بنک نے اپنے طور پر کم کی۔"ہم" بے خبر تھے۔ ہاں تو اس قدر مشترک کو تازہ انٹرویو میں "فٹ" کرنے کی کوشش کیجئے۔ کیا کہیں؟ فٹ نہیں ہو رہا ہے؟ کوئی بات نہیں، اسے سچ گوئی کے اس پہاڑ کے کوہ صداقت و امانت کہئے، پر رکھ دیجئے۔ جو حکومت نے ان تینوں میں کھڑا کیا ہے اور جس کی بالا قامتی مائونٹ ایورسٹ کو شرما رہی ہے۔ ٭٭٭٭٭میڈیا کی ذمہ داری کو داد دیجئے کہ قوم کو اس بحران کی ہوا نہیں لگنے دی جس نے کم از کم سندھ (بشمول کراچی) کی زندگی مفلوج کر کے رکھ دی، 70فیصد انڈسٹری بند کر دی، ٹرانسپورٹ کا پہیہ بے جان کر دیا اور زندگی پر نیا عذاب نازل کر دیا۔ بحران تین دن سے جاری تھا۔ بھلا ہو وزیر اعظم کا جنہوں نے بحران کا نوٹس لیا اور اس نوٹس کے صدقے قوم کو پتہ چلا کہ گیس کا بحران بھی آ براجا ہے۔ کچھ افسروں کی قربانی ہو گی۔ اس سے کیا ہو گا۔ جن کا کچھ بنانا مقصود تھا۔ ان کا بہت کچھ بن گیا۔ وما توفیقی الا باللہ۔ ٭٭٭٭٭ایک واقف کار پریشان حالی کی تصویر بنے ہوئے تشریف لائے۔ فرمایا، جب سے عمران خاں صاحب کی حکومت آئی ہے، ملک پر ایک کے بعد ایک برکت نازل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کچھ اور لفظ استعمال کیا تھا لیکن ازراہ مثبت روئی اسے برکت سے تبدیل کر دیا ہے۔ خیر، ان سے جواب میں عرض کیا۔ انتظار فرمائیے، کشتی کسی جودی پہاڑ سے جا لگے اور کوئی نجات اس بحر برکات سے ملنے کی سبیل پیدا ہو۔ ٭٭٭٭٭ایک برکت سے جنوبی پنجاب کے کاشتکار خوب فیض اٹھا رہے اور جھولیاں اٹھا اٹھا کر دعائیں دے رہے ہیں۔ جی، یہ ذکر ہے گنے کی کرشنگ شروع ہونے کا، جو بدستور 15نومبر تک ہر صورت شروع ہو جاتی ہے۔ اب 15دسمبر آنے کو ہے اور کرشنگ کی کوئی خبر نہیں۔ کاشتکار فریادی ہیں کہ گنا سوکھ کر سرکنڈا بن جائے گا۔ کیا کرشنگ اس کے بعد ہو گی۔ جی ایسا ہی ہے۔ حکومت نے "سوچ سمجھ کر، پورا"تدبر"کر کے یہ حکمت عملی بنائی ہے۔ ٭٭٭٭٭ایک برکت علاوہ ازیں بھی ہے لیکن وہ شاید کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ خبر ہے کہ نومبر میں بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 400ملین ڈالر کی یعنی 20فیصد کمی ہو گئی جو کہ ریکارڈ ہے۔ ترسیلات زر تو جب سے خاں صاحب آئے ہیں، کم ہی ہوتی جا رہی ہے لیکن نومبر میں کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے۔ بہرحال، اسے برکت کا نام دینا مناسب نہیں۔ خاں صاحب نے کہا تھا میں آ گیا ہوں۔ رقوم کی بارش کر دیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں نے "اب میں آ گیا ہوں " کا مطلب پتہ نہیں کیا سمجھا اور ہاتھ روک لئے۔ ٭٭٭٭٭وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اپوزیشن میں تھیں تو گاہے گاہے لاپتہ افراد کا معاملہ، اٹھاتی رہتی تھیں، چنانچہ یہ خبر ان کے لئے ہے کہ حالیہ مہینوں میں مزید ساڑھے نو سو افراد لاپتہ ہو گئے۔ انہوں نے کئی روز بعد بھی اس خبر کا نوٹس نہیں لیا۔ خبر ان تک پہنچی نہیں یا ان کا معاملہ بھی ویسا ہی ہو گیا جیسا جنوبی پنجاب فرنٹ والوں کا ہوا کہ جب سے وزارتیں ملی ہیں، جنوبی صوبہ بنانے کی بات کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ کسی نے بتایا دراصل ان کا احساس محرومی دورہو گیا۔ بڑے بھائی (خسرو صاحب) وفاقی وزیر بنے، آدھا احساس محرومی دور ہوا، چھوٹا بھائی صوبائی وزیر بنا، باقی آدھا بھی دور ہو گیا؟

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani