گوادر
موجودہ حکومت کے اتحادی اور سابق سے سابق حکومت کے سابق ڈپٹی پرائم منسٹر نے انتباہ کیا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام کو دو وقت کے لالے پڑے ہوئے ہیں، یہی صورتحال رہی تو حکومت کی ساری پرفارمنس ختم ہو جائے گی۔
مہنگائی تو متنازعہ امر ہے۔ حکومت کہتی ہے کوئی مہنگائی نہیں۔ ابھی دو دن پہلے مشیر خزانہ نے فرمایا کہ منی بجٹ آ رہا ہے لیکن اس کے آنے سے کوئی مہنگائی نہیں ہو گی۔ ان کے بیان کے ساتھ ہی یہ خبر بھی نمایاں شائع ہوئی ہے کہ اکثر یعنی زیادہ تر اشیا مہنگی ہو جائیں گی۔ اس فقرے میں مہنگائی سے پہلے مزید کا لفظ غالباً جگہ کی کمی کی وجہ سے نہیں دیا گیا۔ بہرحال، یہ متنازعہ معاملہ ہے۔ مہنگائی ہے یا پھر نہیں ہے، اس کا فیصلہ بہتر ہے کہ جسٹس جاوید اقبال سے کرا لیا جائے جو فیس نہیں، کیس دیکھتے ہیں۔
البتہ دوسری بات جو سابق ڈپٹی پرائم منسٹر نے کی، وہ سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ کہ مہنگائی جاری رہی تو حکومت کی پرفارمنس ساری کی ساری ختم ہو جائے گی۔ ، ختم وہ شے ہوا کرتی ہے جو موجود ہو۔ لاموجود کے خاتمے کی سائنس ڈپٹی صاحب ہی واضح کر سکتے ہیں۔ ویسے ایک صحافی کا یہ خیال ہے کہ حکومت سابق ڈپٹی صاحب کو پھر سے ڈپٹی وزیر اعظم بنا دیا جائے تو وہ بھی شوکت ترین کی طرح یہ خوشخبری سنانے میں دیر نہیں لگائیں گے کہ مہنگائی ہے ہی نہیں، تھوڑی بہت تھی بھی تو ختم ہو گئی ہے۔
٭وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ اس سے پہلے ان کا فرمانا تھا کہ پاکستان دنیا کے اکثر ممالک سے سستا ہے۔ ترمیم واضانہ شدہ بیان میں انہوں نے پاکستان کو تمام ممالک سے سستا قرار دے دیا ہے۔ اس پر کچھ اور تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس اتنا کہنا کافی ہے کہ گل ودھ گئی اے مختاریا۔ بلکہ گل بہت ہی ودھ گئی اے مختاریا۔
٭تجاوزات وغیرہ کے حوالے سے ایک کیس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اسلام آباد کی جھگیوں کو بغیر نوٹس کے گرا دیا جاتا ہے جبکہ مارگلہ کے علاقے میں غیر قانونی ہوٹلوں کو نوٹس دے کر بھی کارروائی نہیں کی جاتی۔ ایسا تو ملک بھر میں ہو رہا ہے۔ کچھ ملتی جلتی بات جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کی ہے۔ فرمایا، ظالم اشرافیہ مسلط ہے، حکومت نے امیروں اور غریبوں کی دو دنیائیں بنا دی ہیں۔
خیر سنا ہے کہ غریبوں کی دنیا بہرحال موجود تو ہے ورنہ کسی دن یہ اعلان بھی آ جائے گا کہ نئے پاکستان میں صرف اشرافیہ رہے گی۔ یادش بخیر، وزیر اعظم نے رحمۃ للعالمین اتھارٹی کا چیئرمین کسی ڈاکٹر اعجاز کو بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک آرٹیکل ان دنوں سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے جس میں موصوف نے اعلان کیا ہے کہ حکومت صرف منتخب اشرافیہ کا حق ہے اور جمہوریت تو بدترین نظام ہے۔
ملاحظہ فرمائیے، رحمۃ للعالمین تو سب جہانوں کے لئے رحمت تھے اور ان کے نام سے منسوب اتھارٹی کے چیئرمین فرماتے ہیں کہ حق صرف اشرافیہ کا ہے۔ اشرافیہ نے 2014ء میں چھ ماہ تک اسلام میں دھرنا دیا۔ طبقہ امرا کے نوجوان رات دن یہاں اودھم مچائے رہے اور میڈیا نے ان کی چوبیس گھنٹے لائیو نشریات کی کہ اشتہارات بھی روکے، صرف اشرافیہ کا دھرنا دکھایا۔ ادھر آج کی خبر لیجیے، گوادر میں غریبوں کا دھرنا اڑھائی ہفتے سے جاری ہے اور میڈیا پر کوئی ٹکر ہے نہ اخبار میں کوئی خبر۔ عالمی میڈیا بھی اس دھرنے کو کوریج دے رہا ہے اور خوب دے رہا ہے۔
گوادر اور مکران کے لوگ غریب نہیں، انتہائی غریب ہیں۔ ان کا کاروبار مچھلیاں پکڑناہے، اشرافیہ کی حکومت جب سے آئی، اپنے ٹرالر چھوڑ دیے، ماہی گیر بے روزگار ہو گئے۔ وہ ٹرالر مافیا سے نجات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور پینے کا صاف پانی مانگ رہے ہیں۔
اشرافیہ ان کی خبر نہیں چلے دے رہی۔ مطالبہ کہاں مانے گی، الٹا صوبے بھر کی فورسز نے دھرنے کا گھیرائو کر لیا ہے کہ ہٹو، اشرافیہ کے حق کو چیلنج کرتے ہو، باز نہ آئے تو رگڑ کر رکھ دیں گے۔ بی بی سی نے لکھا کہ گوادر میں انسانوں کا سمندر امڈ آیا ہے۔ غلط، انسانوں کا نہیں۔ بھوکی ننگی گندی غریب مخلوق، اشرافیہ کا ذائقہ خراب کرنے امڈ آئی ہے۔ نئے پاکستان کا نظریہ پاکستان جملہ حقوق بحق اشرافیہ محفوظ سے عبارت ہے۔ خبردار کوئی اس تحریر پر انگلی اٹھانے کی جرات نہ کرے، باقی سب خیریت ہے اور پاکستان دنیا کا سب سے سستا ملک ہے۔
٭خبر ہے کہ پاکستان میں کرپشن اس سال چار درجے اور بڑھ گئی ہے۔ اتنی ہی پچھلے سال بڑھی تھی اور اتنی ہی اس سے بھی پچھلے سال۔ ایک دعا یاد آ گئی لیکن وہ ایسے موقعوں پر نہیں پڑھی جاتی۔ دعا یہ ہے اللھم زد فزد۔ بس یاد کر لیجیے، کبھی نہ کبھی اسے پڑھنے کا موقع بھی آ ہی جائے گا۔ بہرحال، خبر کی"مثبت رپورٹنگ" یہ ہے کہ نئے پاکستان میں ہر شے اوپر ہی اوپر جا رہی ہے۔ خبر میں یہ بھی ہے کہ 83فیصد آبادی کی آمدنی ان تین برسوں میں آدھی رہ گئی۔
خبر کے اس حصے کی مثبت رپورٹنگ کیسے کی جائے۔؟ بالکل آسان بات ہے یوں پڑھیے کہ ریاست مدینہ کی 83فیصد آبادی حد سے زیادہ کفایت شعار ہو گئی(یا کر دی گئی) کفایت شعاری اچھی بات ہے۔ باقی رہے 13فیصد تو ان میں سے آدھے اشرافیہ ہیں۔ باقی آدھے کچھ عرصے بعد آر ہو جائیں گے یا پار۔ مطلب یہ کہ یا تو کفایت شعار سینہ چاکان چمن سے آ ملیں گے یا جوں توں کر کے اشرافیہ میں شامل ہو جائیں گے۔