Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Abdullah Tariq Sohail
  3. Daman To Be Dagh Hai

Daman To Be Dagh Hai

دامن تو بے داغ ہے

لیجئے جناب رمضان کا آدھا مہینہ گزر گیا۔ خوش خوراک، دیسی مرغیوں کے شوقین حکمرانوں نے مڈل کلاس روزہ داروں سے افطار چھین لی۔ انہیں فروٹ چاٹ بنانے سے روک دیا، ان سے لیموں پانی بھی چھین لیا۔ روزہ نمک سے کھولنا بھی سنت ہے، ہرن کی مسلم بھنی ہوئی رانیں کھانے کے رسیا حکمرانوں نے کھجوریں اتنی مہنگی کر دی ہیں کہ بہت سے لوگوں کو بھولی بسری سنت زندہ کرتے ہی بنی۔ چلئے، سنت کو زندہ کرنا ازحد ثواب کا کام ہے اور بلا شبہ اس کا ثواب حکمرانوں ہی کو جائے گا۔ ان گنت لوگ تو خود ہی حکمرانوں کے لیے "ایصال ثواب"کرنے لگے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ریاست مدینہ نے رمضان کے مہینے میں سود کی شرح میں ڈیڑھ فیصد بابرکت اضافہ کر دیا ہے۔ یہ کام بلکہ شاید یہی کام کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے عہدیدار کو پاکستان لا کر سٹیٹ بنک ان کی تحویل میں دے دیا گیا۔ بعض احباب کہتے ہیں کہ موصوف اب آئی ایم ایف کے عہدیدار نہیں ہیں، استعفیٰ دے کر وطن آئے ہیں۔ یہ احباب بتائیں جب موصوف کا دو سالہ کنٹریکٹ ختم ہو گا تو کیا وہ ریٹائر ہو جائیں گے؟ نہیں، با یقین وہ واپس آئی ایم ایف جائیں گے۔ تو یوں کیوں نہ کہیے کہ وہ آئی ایم ایف ہی کی ذمہ داری پر پاکستان آئے ہیں۔ ٭٭٭٭٭سود کی شرح اسی حکومت نے پہلے بھی بڑھائی تھی۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی کو پھر عروج ملے گا۔ وہ تو سو راستوں سے اگرچہ پہلے ہی فروغ پا رہی ہے۔ سٹیٹ بنک نے اطلاع دی ہے کہ سال بھر میں مہنگائی دوگنی ہو گئی ہے۔ اب کتنی اور بڑھے گی۔ پکی اطلاع ہے کہ گیس اور بجلی کی مدوں میں ہر تین مہینے بعد اضافے ہوا کریں گے۔ بجٹ میں سات سو یا اس سے بھی زیادہ ارب کے ٹیکس لگیں گے، وہ غریب اور مڈل کلاس کا کیا حال کریں گے۔ ریاست مدینہ بہرحال بہبود کے کام بھی کر رہی ہے۔ کل ہی کی خبر ہے کہ بڑے بڑے ٹیکس چوروں کو مزید چھوٹ دی جا رہی ہے۔ ٭٭٭٭٭مہنگائی کا ذکر کل رات ایک عمرانی اینکر پرسن بھی کر رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ دراصل عمران کے اردگرد سارے چور اکٹھے ہو گئے ہیں کچھ قاف لیگ سے آئے، کچھ ن لیگ سے اور کچھ پیپلزپارٹی سے، اوپر سے ٹیکنو کریٹ بھی آ گئے ہیں۔ یہ سب چور ڈاکو ہیں، ورنہ صاحب پر تو کرپشن کا کوئی الزام ہے ہی نہیں۔ یہ اینکر پرسن وہی 35غیر ملکی اکائونٹس والے ہیں۔ بے شک۔ لیکن یہ سارے چور کیا گن پوائنٹ پر عمران کے ارگرد آ گئے؟ یہ بھی بتا دیں کہ کرپشن کا کوئی الزام واقعی نہیں ہے، لگنے ہی نہیں دیا گیا؟ اگلے پروگرام میں کیوں نہ یہ مطالبہ فرما دیں کہ تحریک انصاف کے اٹھارہ غیر ملکی اکائونٹس کا حساب آن دی ریکارڈ لے آیا جائے۔ اس لیے کہ دامن تو صاف ہے۔ پھر بلا وجہ ان اکائونٹس کو کیوں پوشیدہ رکھا جا رہا ہے؟ الیکشن کمشن تو بے چارہ حکم کا غلام، وہ تو کچھ نہیں کر گا۔ پھر لندن، دبئی، امریکہ کی" پراکسی" جائیدادوں کے بارے میں بھی کچھ ارشاد فرما دیں جن میں سے ہر جائیداد نواز شریف کے پارک لین والے فلیٹوں سے دس دس گنا مہنگی ہے؟ یہاں تو ماجر الٹ ہے۔ حنیف عباسی نے "ایمانداری" کے خلاف انصاف مانگا تو ایفیڈرین کیس میں عمر بھر کی قید سنا دی گئی۔ سوال وہی ہے، کرپشن کا کوئی الزام ہے ہی نہیں یا لگنے ہی نہیں دیا جا رہا۔ نو ماہ میں کتنے ہی میگا کرپشن سکینڈل سامنے آئے اور ایک جھلک دکھا کر گمنامی کے بھنور میں گم ہو گئے۔ دوائوں کا سکینڈل، گیس کا سکینڈل، ایک وزیر کی درجن بھر سمندر پار جائیدادوں کا سکینڈل، گورنر کے خلاف ڈیم فنڈز کی خوردبرد کا سکینڈل اور پختونخواہ کے درجن بھر میگا سکینڈل۔ یہ سارے سکینڈل اس لیے گم ہو گئے کہ کرپشن کا تو کوئی الزام "ان" پر ہے ہی نہیں۔ ٭٭٭٭٭مریم نواز سیاست میں دھیرے دھیرے سرگرم ہو رہی ہیں۔ پیر کی شام انہوں نے پارلیمانی اجلاس کے موقع پر اعلان کیا کہ ان کا بیانیہ وہی ہے، ووٹ کو عزت دو۔ انہوں نے کہا کہ میں سلیکٹڈ وزیر اعظم کو نہیں مانتی، یہ جعلی وزیر اعظم ہے۔ اس نے ووٹ چوری کیے ہیں۔ (اس دوران خبر ہے کہ نیب انہیں عید کے بعد گرفتار کر لے گا)۔ یہ الزام سراسر زیادتی ہے۔ وزیر اعظم نے ووٹ چوری کیے نہ ان کی پارٹی نے۔ الحمدللہ ان کا دامن ووٹ چوری کرنے کے الزام سے بالکل صاف ہے۔ ووٹ کسی اور نے چوری کیے، انہیں تو بندھی بندھائی گٹھڑی تھما دی گئی۔ بندھی بندھائی گٹھڑی کسی کو ملے تو وہ کفران نعمت کیوں کرے۔ پنجابی محاورہ ایسے ہی موقع کے لیے ہے کہ علبھی چیز خدا دی…دھیلے دی نہ پا دی٭٭٭٭٭وزیر خارجہ، امور خارجہ پرشاذ ہی بولتے ہیں، دیگر امور پر اکثر بولا کرتے ہیں۔ تازہ خطاب پارلیمانی امور پر فرمایا ہے۔ کہا ہے آئین میں ڈپٹی وزیر اعظم کی کوئی گنجائش نہیں۔ کیا ڈپٹی وزیر اعظم کے حوالے سے کوئی تجویز سامنے آئی ہے؟ نہیں۔ کیا کسی کو "نکا" وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے؟ نہیں، وہ آجکل پنجاب کا سپیکر ہے اور اسی پر "قناعت" کیے ہوئے ہے۔ پھر یہ "پیشگی اعتراض" کس سیاق و سباق میں ہے؟ ظاہر ہے وہ اپنے حریف جہانگیر ترین پر تنقید کر رہے ہیں جن کے بارے میں مصدقہ خبر یہ ہے کہ غیر اعلانیہ طور پر ڈپٹی وزیر اعظم کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ وزیر خارجہ کا اعتراض غلط ہے یا بجا، دونوں صورتوں میں انہیں یہ نکتہ وزیر اعظم کی حکومت میں پیش کرنا چاہیے نہ کہ عوام کی عدالت میں لانا چاہئے۔ ٭٭٭٭٭خبر ہے کہ 9ماہ کے دوران تمام بڑی صنعتوں کی پیداوار گر گئی۔ ابھی کیا گری ہے، اگلی سہ ماہی کا انتظار کیجئے، تب پتہ چلے گا کہ "گرنا" کسے کہتے ہیں۔

Check Also

Rawaiya Badlen

By Hameed Ullah Bhatti