چھترول کا ریلیف
وزیر مملکت شہریار آفریدی کے اس انکشاف پر یار لوگ سر دھن رہے ہیں کہ ان کے وزیر اعظم نے حال ہی میں ایران کے صدر ہاشمی رفسنجانی سے فون پر بات کی ہے۔ رفسنجانی کو مرحوم ہوئے دو سال گزر گئے؛چنانچہ ان کے انکشاف کو لطیفہ سمجھا جا رہا ہے لیکن یہ سچ بھی تو ہو سکتا ہے۔ بنی گالہ روحانی علوم و معارف کا سرچشمہ ہے۔ ابن عربی اور مولانا روم بھی یہاں پانی بھرتے ہیں۔ کیا عجب، خان صاحب نے حاضرات ارواح کا عمل کیا ہو اور رفسنجانی کو طلب کر کے بات کر ڈالی ہو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آفریدی صاحب کو تو "داد" خوب دی جا رہی ہے، وزیر اطلاعات کے اس بیان کو کسی نے نہیں سراہا جو انہوں نے تین چار روز پہلے دیا اور کہا کہ ان کی حکومت سوویت یونین سے بہتر تعلقات چاہتی ہے۔ رفسنجانی تو ابھی دو سال ہوئے کہ مرحوم ہوئے انہوں نے ایک لحاظ سے ٹائم ٹریول کی بات کی۔ ایک فلم آئی تھی بیک ٹو فیوچر۔ تبدیلی سرکار کی اس فلم کو "فارورڈ ٹو پاسٹ" کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭آفریدی صاحب نے چند ماہ پہلے ماضی یعنی تاریخ کی تصحیح بھی کی تھی۔ ایک اجتماع میں اسلامی خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ خدا کی قدرت دیکھو، اس نے ابو جہل کے گھر فرعون کو پیدا کر دیا۔ خدا کی قدرت تو سبھی دیکھا کرتے ہیں، دیکھتے آئے ہیں لیکن آفریدی نے جس قدرت کی طرف اشارہ کیا، اس پر پہلے کسی کی نظر نہیں گئی تھی۔ بہرحال، بات ان کی اتنی غلط بھی نہیں۔ فرعون بھی تو ایک طرح ابو جہل ہی تھا۔ ایک چینل کے نیوز کاسٹر نے کہا، پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی زبان اکثر پھسل جاتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے۔ چیف آف تبدیلی سٹاف سے لے کر صوبائی وزرا تک، پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی زبان پھسلنے کے باب میں خوب رواں ہے۔ خاص طور سے جب معاملہ اسلامی اصطلاحات کا ہو اور بہت ہی خاص طور سے جس معاملہ اقتصادیات کا ہو۔ تین ہزار کروڑ روپے، تین ہزار کروڑ ارب، ستر ہزار ارب، 80ہزار ارب، 8ہزار کروڑ دو تین دن پہلے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انکشاف فرمایا کہ نواز، زرداری حکومتوں نے دس سال میں تیس ہزار ٹریلین کا قرضہ لیا۔ ایک ٹریلین سو ارب روپے کا ہوتا ہے۔ دیکھیے اس ھندسے میں کتنے صفر آتے ہیں۔ اس رقم سے تو پورا امریکہ خریدا جا سکتا ہے، ساتھ میں کینیڈا بطور "جھونگا" خود ہی چلا آئے گا۔ ٭٭٭٭٭تحریک انصاف کے رہنمائوں کی زبان کی پھسلن کیا کہنے، ان کے قلمکاروں کے قلم بھی اکثر پھسل جاتے ہیں۔ جام کمال کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے بلوچستان پر حسن کمالات کی بارش ہے۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور تخریب کاری پھر سے شروع ہے، دن دوگنی، رات چوگنی ترقی ہے۔ تین چار دن پہلے کوئٹہ میں بڑا بم دھماکہ ہوا۔ اس پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے پی ٹی آئی اے کے ایک بزرگ کالم نویس نے ساری ذمہ داری بھارت پر ڈال دی اور حکومت کے لیے دس فیصد بھی نہیں چھوڑی۔ یہ انکشاف فرمایا کہ بلوچستان میں بم دھماکوں کے لیے بھارتی ایجنسی "را" سالانہ پانچ سو ارب ڈالر خرچ کرتی ہے۔ بھارت کا کل سالانہ بجٹ کتنا ہے، موصوف نے اسکا ذکر ضروری نہیں سمجھا۔ ٭٭٭٭٭وزیر پارلیمانی امور نے جو فرمایا، اسے بہر حال زبان کی پھسلن نہیں کہا جا سکتا۔ اسے تو یا کسی بیان اور آئندہ کے روڈ میپ کا سوچا سمجھا اظہار سمجھنا چاہیے۔ فرمایا، جو لوگ سڑکوں پر آئیں گے، ان کی چھترول ہو گی۔ چھترول تو خیر ان کی بھی ہو رہی ہے جو سڑکوں پر نہیں آئے۔ گھر میں گھس کر ان کی چھتر افزائی بذریعہ یوٹیلٹی بلز ہو رہی ہے اور خوب ہو رہی ہے۔ ایسے ہی عمران خان کے ایک ممدوح کا بیان یاد آ گیا۔ خان صاحب جن کی انتخابی فتح کے لیے دعا گو بھی ہیں اور پر امید بھی۔ اس ممدوح نے کہا تھا ہم گھر میں گھس کر ماریں گے۔ بس ایسے ہی یہ بیان یاد آ گیا۔ خیر، خان صاحب کی حکومت نے گھروں میں گھس کر عوام کی چھترول کرا دی تو اسے انصاف گھر کی دہلیز پر کا نام دیا جا سکتا ہے یا ریلیف کی ایک قسم۔ ظاہر ہے جب چھترول گھروں کے اندر ہی دستیاب ہو تو عوام کو سڑکوں پر آنے کی کیا ضرورت۔ سڑکوں پر آنے کی زحمت سے بچ گئے تو یہ بھی ریلیف ہی ہوا۔ چھترول کی یہ دھمکی ان متوقع مظاہرین کے لیے ہے جو ہر روز، صبح و شام کے حساب سے بڑھتی مہنگائی سے جاں بلب ہیں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ رمضان کے بعد کسی بھی وقت سڑکوں پر آ سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭بات چھترول تک رکنے کا امکان نہیں ہے۔ اشرافیہ کے قریبی ترجمان تجزیہ کار کالم نگار نے اپنے ٹی وی پروگرام میں فرمایا کہ پانچ سال پورے ہونے سے پہلے جو بھی عمران حکومت پر تنقید کرے، اس کے کانوں پر پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جائے، اس کے ہونٹ سی دیئے جائیں۔ یہ دو نکاتی لائحہ عمل ہے، تیسرا نکتہ دانشور صاحب بتانا بھول گئے کہ آنکھوں میں دہکتی ہوئی سلائیاں پھیر دی جائیں۔ اشرافیہ کا یہ تین نکاتی فارمولہ ہزاروں سال پرانا ہے۔ قدیم ہندوستان میں کوئی شودر کسی برہمن کو دیکھ لیتا تو اس جرم میں اس پر یہی تین نکاتی سزا نافذ کی جاتی تھی۔ موصوف اشرافیہ کالم نگار نے اسی فارمولے کے احیاء کی تجویز دی ہے۔ ویسے ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ فارمولا موصوف کے اپنے ذہنی کارخانے کی مصنوعات میں سے نہیں ہے۔ یہ خیال کہیں عالم غیب سے ان پر القا کیا گیا ہے کہ اسے فلوٹ کر دو تا کہ آئندہ حالات میں مطلوبہ قانون سازی کے لیے ذہن سازی ہو سکے۔ شودروں کو اوقات میں رکھنا برہمن پر لازم ہے۔ ٭٭٭٭٭تبدیلی سرکار تبادلوں کا ایک اور سونامی لے آئی۔ چند ہفتوں سے پنجاب کا تیسرا آئی جی آ گیا۔ دوچار تبادلے ہر روز، تبادلوں کا ریلاہر دوسرے ہفتے۔ لگتا ہے، خان صاحب جب تبدیلی کی بات کرتے تھے تو ان کے ذہن میں "تبادلے" تھے۔ تبدیلی اور تبادلہ میں محض حرفوں کے ہیر پھیر کا فرق ہے، بات اب سمجھ میں آئی۔ سنا ہے کہ نئے آئی جی "کسی کو نہیں چھوڑونگا" والے خان صاحب کے وژن کی تکمیل میں مفید ثابت ہوں گے۔