اورینٹل کالج ایلومنائی میٹ اپ
اورینٹل کالج لاہور کو قائم ہوئے تقریباً ڈیڑھ صدی کا زمانہ بیت گیا، اس طویل مدت میں مشرق کی اس عظیم دانش گا ہ نے تحقیق و تنقید اورتصنیف و تالیف کے میدان میں جو عظیم الشان روایت قائم کی اس کی اہمیت و افادیت برعظیم پاک و ہند کی تعلیمی تاریخ میں بڑی واضح اور نمایاں ہے۔ اس روایت کی آبیاری میں کئی نام ور علماء اور محققین نے اپنا اپنا کردار ادا کیا، کئی نامور تلامذہ نے اس سرچشمہ علوم سے فیض یاب ہو کر ملکی و قومی زندگی میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔
اس ادارے کو انجمن پنجاب کی توسیع کہا جاتا ہے، انجمن پنجاب کی داغ بیل 21 جنوری 1865ء کو لاہور میں ڈالی گئی، جس کے مقاصد میں قدیم علوم کا احیائ، دیسی زبان کے ذریعے علومِ مفیدہ کی اشاعت، صنعت و تجارت کا فروغ، علمی و ادبی اور معاشرتی و سیاسی مسائل پر بحث ونظر اور صوبے کے با رسوخ، اہل علم طبقات اور افسرانِ حکومت میں رابطے کی بحالی شامل تھا۔
ڈاکٹر لائٹنر انجمن کے روحِ رواں تھے، محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی نے موضوعاتی مشاعروں کی داغ بیل ڈالی اور دس کامیاب مشاعرے بھی منعقد کروائے۔ انجمن کے پہلے ہی سال علوم مشرق کا ایک مدرسہ بھی شروع ہوا، ڈاکٹر لائٹنرعلوم مشرق کی ایک ایسی یونیورسٹی قائم کرنا چاہتے جس میں جدید علوم اور قدیم علوم کا سنگم ہواور جو یہاں کے باشندوں کی ذہنی و اخلاقی سطح کو بلند کرکے انھیں صحیح معنوں میں علم فاضل بنائے، یہی وجہ ہے انجمن پنجاب اور ڈاکٹر لائٹنر کو اورینٹل کالج کے حوالے سے انتہائی اہمیت حاصل ہے۔
ایک ماہ قبل اورینٹل کالج سے برادر مشتاق احمد نے جب یہ خو ش خبری سنائی کہ اورینٹل کالج کی انتظامیہ ایک ایلومنائی میٹ آپ رکھ رہی ہے جس کا مقصد اس ادارے سے وابستہ لوگوں کو ملنے کا موقع فراہم کرنا ہے تو دل باغ باغ ہوگیا۔ اورینٹل کالج کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اس اہم ترین دانش گاہ سے وابستگان اور محبت کرنے والے ایک چھت تلے اکٹھے ہوئے ہیں اور یہ یقینا ایک بڑا اور شاندار اجتماع تھا۔
اس ادارے کے درودیوار سے محبت کرنے والے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو بولنے، سننے اور سمجھنے والے موجود ہیں، وہاں وہاں اورینٹل کالج سے عشق کرنے والے موجود ہیں۔ اس ادارے سے وابستہ لوگ اسے درگاہ سمجھتے ہیں، ان سرخ گنبدوں میں اڑتے کبوتروں کی زبانی کتنی ہی کہانیاں سنی جا سکتی ہیں۔ کیسے کیسے نابغے اس دانش گاہ سے وابستہ رہے، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر سہیل احمد خان، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، سجاد باقی رضوی، حفیظ تائب، ڈاکٹر خواجہ زکریا، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹرتحسین فراقی اور لمبی فہرست۔
24 اور 25 جنوری کو ہونے والے اس عظیم اجتماع کو منیر نیازی سے منسوب کیا گیا، اس سے قبل بھی ایک ادبی میلہ منعقد ہو چکا جسے احمد مشتاق سے منسوب کیا گیا تھا۔ یہ ادبی میلے بنیادی طور اورینٹل کالج سے وابستہ احباب کو ملاقات کا موقع فراہم کرنے کے لیے سجائے جا رہے ہیں، انجمن اردو، جس کا بنیادی مقصد طلباء کی علمی و ادبی نشونما ہے، اس نے اورینٹل کالج کی علمی و ادبی روایت کو آگے بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ وہ طلباء جنھیں اس ادارے سے فارغ ہوئے تیس، چالیس یا پچاس سال ہو چکے، آج جب وہ ایک عرصے بعد اسی ادارے اور اسی لان میں اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ گپ شپ کریں گے تو سوچیں کتنے ہی زمانے ان کا طواف کریں گے، کیسے ایک پل میں چالیس پچاس سال سمٹ آئیں گے۔
ڈاکٹر معین نظامی، پرنسپل اورینٹل کالج داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اپنے دور میں ایک ایسا کام کیا جس کی ایک عرصے سے ضرورت تھی، ہمیں اس ادارے سے فارغ ہوئے سات سال ہو چکے، ہم سوچتے تھے کہ کیا کبھی ایسا موقع آئے گا کہ سب کلاس فیلوز ایک مرتبہ پھر ایک ساتھ بیٹھیں گے، کیا کبھی ایسا ہوگا کہ ہم ایک مرتبہ پھر شعبہ اردو کو جاتی لکڑی کی سیڑھیوں پر گھنٹوں بیٹھیں گے، لان میں رکھے سیمنٹ کے بینچوں سے کتنی یادیں وابستہ ہیں، سب ایک پل میں سمٹ جائے گا جب ہم ساٹھ سے ستر کلاس فیلوز 24 یا 25 جنوری کو اورینٹل کالج میں ملے۔
مشتاق احمد(جو ایم اے میں میرا سینئر تھا) نے بہت کوشش سے اس میلے کا اہتمام کیا ہے، اس کے ساتھ ڈاکٹر شعیب احمد اور ڈاکٹر ساجد نظامی بھی۔ ان احباب نے اس میٹ آپ کی کامیابی کے لیے بہت محنت کی اور یہ محنت کتنے بچھڑے دلوں کو ملانے کا کام کیا کتنے ہی لوگ نصف صدی بعد ملے، اس کا کریڈٹ اس میٹ آپ کی ٹیم کو جاتا ہے۔
منیر نیازی ادبی میلے میں بین اکلیاتی مقابلہ جات، کتاب میلہ، ادبی سیشنزاور مشاعروں کا اہتمام کیا گیا، اس میلے میں پاکستان بھر کی جامعات سے تشنگان علم و ادب او ر نئے قلم کار اکٹھے ہو ئے۔ انھیں ایک دوسرے کو سننے کا موقع ملا، ان مقابلہ جات میں شرکت کرنے والوں کو یادگاری اعزازات سے بھی نوازا جاتا ہے۔ اس ادبی میلے اور ایلومنائی میٹ آپ کو جو شہرت مل رہی ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں سے جانے والے اس بات کے منتظر تھے کہ کب انھیں واپس بلایا جائے، اورینٹل کالج کی طرف سے بلاواکسی نعمت سے کم نہیں اس سے وابستہ لوگ اس بلاوے کے منتظر رہتے ہیں۔ جتنا بڑا ادارہ ہو، اس سے وابستگی اتنی ہی بابرکت اور قیمتی ہوتی ہے، اورینٹل کالج بھی ایسا ہی ہے۔
اس اہم میلے کے موقع پر مشتاق احمد نے ایک اور عمدہ کام کیا، اورینٹل کالج سے وابستہ شاعروں کا تعارف مع کلام بعنوان: "ریت اس نگر کی" اور افسانہ نگاروں کا تعارف مع افسانہ"نقش پائے خامہ"کی بھی اشاعت ممکن بنائی، انجمن اردو کے پہلے رجسٹرڈ (1952.1948ئ) کی اشاعت بھی ایک علمی کارنامہ ہے۔ ان کتب کے ذریعے اورینٹل کالج کی علمی روایت کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ یہ تینوں منیر نیازی ادبی میلے کے دوران سنگ میل کے اسٹال پر موجود تھیں۔