اپنی دنیا آپ پیدا کر
علامہ اقبال نے اپنی نظم "خضر راہ"انجمن حمایت اسلام کے سینتیسویں سالانہ اجلاس میں ترنم سے پڑھ کر سنائی تھی، یہ اجلاس 12 اپریل 1922ء کو اسلامیہ ہائی اسکول اندرون شیرانوالہ میں منعقد ہوا تھا، علامہ یہ نظم سناتے ہوئے بعض اشعار پر خود بھی روپڑے تھے اور مجمع کو بھی اشک بار کر دیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب قسطنطنیہ پر اتحادی قابض تھے، اتحادیوں کے کہنے پریونانیوں نے اناطولیہ میں فوجیں اتاری تھیں، یہی وہ دور تھا جب ہندوستان میں تحریکِ پاکستان شروع ہوئی تھی، پھر خلافت اور ترک موالات کا دور۔
اس زمانے میں عالمِ اسلام شدید خطرات سے دو چار تھا، علامہ اس بات پر شدید دکھی تھے، اس نظم کے دو حصے ہیں، پہلے دو بندوں میں شاعر کا خضر سے خطاب ہے، باقی نو بندوں میں جوابِ خضر ہے۔ اس نظم کا سب سے اہم شعر جس نے ہمیشہ میری تاریک دنیا کو روشن کرنے کا کام کیا، درج ذیل ہے:
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
قارئین اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ دو روز قبل برادر شعیب ہاشمی نے اقبال کا مذکورہ شعر سناتے ہوئے حکم صادر فرمایا کہ الخدمت پانچ ہزار سے زائد نوجوانوں کو ایک پرچم یا پیغام تلے اکٹھا کر رہی ہے اور موضوع ہے"اپنی دنیا آپ پیدا کر"، یہ حکم اور شعر سنتے ہی میراذہن " خضر راہ" اور اس کے پس منظر کی جانب متوجہ ہوا۔
یوں سمجھیں کہ علامہ سے محبت کے باعث میں نے اس گیدرنگ میں شرکت کی ہامی بھر لی اور یوں میں سولہ نومبر کو "الخدمت یوتھ گیدرنگ "میں جا پہنچا جہاں لاہور بھر کی جامعات اور کالجز سے پانچ ہزار سے زائدطالب علم جمع تھے، افتتاحی سیشن میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن، چیئرمین الخدمت ڈاکٹر حفیظ الرحمن، نائب صدر ڈاکٹر مشتاق مانگٹ، محترمہ ڈاکٹر سمعیہ راحیل قاضی، سی ای او گلوبل شاہد اقبال اور برادر خبیب بلال کی گفتگو نے ماحول کو معطر اور منور کر دیا، نوجوانوں سے علامہ کے مصرعے(اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے)کے عنوان تلے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نابغہ روزگار شخصیات کی گفتگو نے سماں باندھ دیا۔
نومبر کے مہینے میں نوجوانوں کا ایسا شاندار اکٹھ اور وہ بھی علامہ کے پیغام کے ساتھ، پہلی مرتبہ دیکھ رہا تھا، یہ سارے نوجوان بنیادی طور پر علامہ کے وہ شاہین تھے جن سے علامہ نے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رکھی تھیں، علامہ کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ نوجوان کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں، اگر ان کی تعمیر و تربیت اور ذہن سازی پر کام کیا جائے تو غیر معمولی نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ علامہ کی شاعری کا بنیادی موضوع خطاب بہ نوجوانانِ اسلام تھا، نوجوانوں کو ان کا ماضی یاد دلانا اور ان کے اندر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا تھا۔
آج کا نوجوان جسے مادیت پسندی نے ملت اسلامیہ کے مسائل سے غافل کر دیا ہے، ماڈرن اور سیکولر بننے کی خواہش نے نوجوانانِ ملت کو اس راستے سے محروم کر دیا ہے جو منزل مقصود کی طرف جاتا تھا، وہی راستہ جس پر چل کر آج کا نوجوان ایسی دنیا تخلیق کر سکتا تھا جس سے ایک بڑے تغیر نے جنم لینا تھامگر صد حیف! علامہ کی شاعری اور تعلیمات کو پس پشت ڈال کر تہذیب فرنگی کی ظاہری چمک دمک کو اپنانے والا نوجوان کیسے سمجھ سکتا ہے کہ علامہ نے اپنی نظم"خضرِ راہ"میں جس دکھ کا اظہار کیا تھا، وہ کیا تھا اور کیوں تھا۔
میرے لیے الخدمت یوتھ گیدرنگ جہاں اپنے مقصد اور پیغام کی وجہ سے اہم تھی، وہاں اس یادگار میٹ آپ میں مشاعرے کا اہتمام بھی بہت معنی خیز تھا۔ یہ نوجوان جو اپنی زبان، تہذیب اور ثقافت سے کنارہ کر چکا ہے، اس کو مشرقی تہذیب و ثقافت اور قومی زبان سے جوڑنا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا علامہ کی شاعری سے۔
جدید ماحول نے اس معاشرے میں جس پژمردگی کو جنم دیا ہے، اس سے کنارہ اسی صورت ممکن ہے کہ آج کا نوجوان اپنی مشرقی دنیا سے بھی رابطہ استوار کرے اور اپنی زبان میں لکھے جانے والے ادب سے بھی، ادب کسی بھی قوم کی بنیادی شناخت ہوتا ہے، جو قومیں اپنے ادب سے گہرا تعلق بناتی ہیں، وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتیں۔ یہ گیدرنگ میرے لیے مشاعرے کی وجہ سے زیادہ اہم بن گئی، محترم عباس تابش، محترم سعد اللہ شاہ، محترمہ حمیدہ شاہین، محترمہ عنبرین صلاح الدین، برادرعمار اقبال اور برادر عمیر مشتاق کی شاعری نے نوجوانوں سے بھرپور داد سمیٹی۔ اردو شاعری سے محبت پیدا کرنے والوں نے اپنے عہد کے مایہ ناز لکھنے والوں کو جس عقیدت اور احترام سے نوازا، قابلِ تحسین ہے۔
اس میگا ایونٹ اورمشاعرے کا اہتمام الخدمت کے رضا کاروں نے برادر صنان اکبر اور حسان بن سلمان کی زیر نگرانی کیا تھا، نعمت اللہ خان ایوارڈ کا اجراء انتہائی احسن قدم تھا، نوجوانوں کو علامہ کے پیغام سے جوڑنے کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے، علامہ کا پیغام ہی وہ واحد "روڈ میپ" ہے جس سے نوجوانو ں کی تعمیر و ترقی اور ذہن سازی ممکن ہے، مادی ترقی اور مادی دوڑ میں اپنے ادب، تہذہب اور ثقافت سے ٹوٹا ہوا رابطہ بحال کرنے کا یہ عمل جاری رہنا چاہیے، مجھے الخدمت فائونڈیشن سے اس لیے بھی محبت ہے کہ یہ کچھ نہ کچھ ایسا کرتے رہتے ہیں جس سے معاشرے کی گھٹن کو کم کیا جا سکے۔
رفاعی کاموں کے ساتھ ساتھ ایسے کام بھی ضروری ہیں جس سے لوگوں کو ذہنی تفریح مہیا کی جا سکے، لوگوں کے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنا، سوال اٹھانے کا حوصلہ دینا بھی جہاد ہے، یہ جہاد جاری رہنا چاہیے، جمود کو توڑنے کا واحد طریقہ حرکت ہے اور حرکت کو موت نہیں۔ بقول اقبال:
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں