Aam Intekhabat Aur Maeeshat Ko Siasi Faislon Ka Intezar
عام انتخابات اور معیشت کو سیاسی فیصلوں کا انتظار
پاکستان کی سیاست وجود پاکستان سے لے کر غیر متزلزل رہی ہے، ویسے تو کہا جاتا ہے سیاست میں کوئی بھی چیز حتمی نہیں ہوتی، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ملکی سیاست سیاستدانوں کے کمزور فیصلوں کی بھینٹ چڑھتی رہی ہے، اپنے سیاسی مستقبل کی سوچ ہی ملک کو انتشار کی جانب لے کر جاتی رہی، پھر ہوا کیا ملک کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا، سیاسی فیصلوں کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ملک دو لخت ہوا 76 سال میں اس ملک کے ساتھ جو ہوا اب بھی جیسے تیسے سانسنیں لے رہا ہے اس پر حیرت ہی ہونی چاہیئے۔
من ہیس القوم ہم لوگوں کو اپنے مزاج بدلنے پڑیں گے، خصوصی طور پر سیاستدانوں کو جنہیں اپنی سیاست زندہ بھی رکھنی ہے، سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بھی سوچنا ہوگا جس عوام سے ووٹوں کا تقاضہ کیا جاتا ہے ان کے لیے انھیں کیا کرنا ملکی ذخائر کو بڑھانا وسائل پیدا کرنا نا کہ مسائل کو بڑھانا۔ ملکی سیاست معیشت کی بحالی پر منحصرہے عوام کا موڈ بھی سیاست کو لے کر سوئنگ ہوا پڑا ہے عوام چاہتی ہے حکومت جو بھی آئے اس کا پیٹ بھرے نہ کہ عوام کا پیٹ کاٹے، اس بارتو لگتا ہے جو بھی جماعت آئے گی اسے کے لیے حالات پہلے سے بہت زیادہ خطرناک ہوں گے، ملکی حالات کو دیکھ کر تو لگتا ہے اقتدار میں آنے والی جماعت اس بار آر یا پار، یعنی اگر کچھ کردکھایا تو پھر مقبولیت آسمان کی بلندیوں کو چھوئے گی ورنہ دعا کے لیے کچھ ہاتھ ہی اٹھے گے۔
پاکستان سیاست میں اگر تبدیلیاں رونما ہورہی ہے ہیں تو بین الاقوامی سطح پر بھی تبدیلیاں پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہیں، دنیا کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں، پاکستان میں الیکشن ہی سمت طے کریں گے اب سیاست روایتی نہیں رہی لوگ پہلے کی طرح کھوکھلے نعروں سے نکل چکے ہیں بلکہ سوشل میڈیا نے لوگوں کو جدید ترقی کے نئے گر سکھا دیئے ہیں، اس لیے سیاستدانوں کو اب اس کا ادراک ہونا چاہیئے کہ سیاست اب آسان نہیں۔ جی بالکل کیونکہ جب عوام اپنے مسائل کا حل خود ہی ڈھونڈیں گے تو پھر سیاستدانوں کے نعرے ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھیں گے، اس لیے جتنی جلدی ہوسکتا ہے دبئی اور سعودیہ میں بیٹھے قائدین کو اتفاق کرلینا چاہئے۔
سیاسی خاندان اپنی نئی نسل کو آگے لانے کی کوششوں میں ہیں مگر اس نئی نسل کو پہلے ایک سیاسی میدان میں اتارنے کے لیے ان کے دماغوں کو تبدیل کیا جاتا ہے یعنی ان کی کونسلنگ کی جاتی ہے کہ اس ملک کی لاچار عوام پر حکومت کیسے کرنی ہے، تبھی تو ان کی نئی نسل کو بھی کامیابی اتنی ہی ملتی ہے جتنی کہ عوام چاہتے ہیں۔ الیکشن کا دور دورا ہے، دو بڑی سیاسی جماعتیں کش مکش میں ہیں کہ کہاں کس کا نفع نقصان ہے انتخابات سے پہلے طے کرلیا جائے مگر ابھی تک روایتی سیاست پر دونوں جماعتیں کہیں نہ کہیں سینگھ پھنسا بیٹھی ہیں جس کے باعث اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دے رہا، ایک معاملے پر تومسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی کا مطالبہ مان لیا ہے وہ ہے پی سی بی کے چئیرمین کا۔ اب باقی معاملات سیٹ ایڈجسمنٹ کے ہیں اور نگراں سیٹ اپ کے وہ بھی لٹک سے گئے ہیں۔
دوسری جانب ایک نئی ڈویلپمنٹ یہ ہوئی کہ گلگت بلتستان میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اپنی حکومت لانے کی کوشش میں ہیں مگر نئے وزیر اعلی کے انتخاب کے لیے دونوں جماعتوں کے پاس نمبر گیم پوری نہیں حالانکہ تحریک انصاف کے 4 ارکان بھی اپوزیشن جماعت کے ساتھ ہاتھ ملا چکے ہیں اس وقت تحریک انصاف کے پاس گلگت بلتستان میں چار اراکین کا ساتھ چھوٹنے پر بھی 23 ارکان ہیں، پیپلزپارٹی اوت نون لیگ کے پاس تحریک انصاف کے 4 ارکان ملا کر بھی 13 کے ہدف تک پہنچ سکی ہے، اپوزیشن کو مزید چار ارکان درکار ہیں جس سے تحریک انصاف اپنی طاقت کھو دے گی، لیکن مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں میں ایک سنگین مسئلے نے سر اٹھا لیا ہے، گلگت بلتستان کی حکومت کا وعدہ تو پیپلزپارٹی سے کیا گیا تھا مگر ن لیگ اپنا امیدوار سامنے لے آئی ہے جس کی وجہ سے نئے وزیر اعلی کا انتخاب بھی التوا کا شکار ہوگیا ہے، یہی حال رہا توسارا ملک ہی ٹھیکے پر دینا پڑے گا۔
یہ بات تو واضح ہے کہ گلگت بلتستان کےمعاملے پر بھی دونوں جماعتوں کے بڑوں میں بات چیت تو ہوگی، ایک جماعت کے سربراہ سعودیہ میں جبکہ دوسری جماعت کے سربراہ ابھی تک دبئی میں قیام پذیر ہیں، وزیر اعظم توصرف حکومت چلا رہے ہیں، خداجانے اب یہ معاملہ مزید کتنا طول پکڑتا ہے۔ اس بار عوام کی تقدیر کے فیصلے تو دبئی میں ہی ہونے ہیں اور انتخابات پاکستان میں۔ پاکستان اور اس کے عوام اپنے ہی سیاستدانوں کی تخلیق کردہ ڈرائنگ روم اور فارن پولیٹکس کا شکار ہیں۔
ملکی سیاست نے تو ملک کو اس دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے، خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا ہی ہے مگر پھر آئی ایم ایف پاکستان میں کس سٹیک ہولڈر پر یقین کرے ایسے میں آئی ایم ایف کے وفد نے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کی ہے، تمام جماعتوں کے پاس جانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ تمام جماعتوں کی گارنٹی لینا چاہتے ہیں کہ الیکشن میں کامیابی کی نتیجے میں حکومت کسی بھی جماعت کی بنے، ادائیگیاں موجودہ معاہدے کے تحت ہی ہوں گی کوئی بھی جماعت اعتراض یا معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرسکے گی۔
آئی ایم ایف تو پہلے ہی پاکستان کے معاشی ڈھانچے پر سوالیہ نشان لگا چکا ہے۔ اس لیے اب وقت ہے سیاستدان اپنا قبلہ درست کریں، عوامی مسائل کو خلوص نیت کے ساتھ حل کریں اور جو فیصلے 24 کروڑ عوام سے چھپ کر بیرون ممالک میں ہورہے ہیں اس سے ان کی نیت پر عوام بلاشبہ عوام کو شک بڑھتا جا رہا ہے، جو کوششیں اپنے جاں نشینوں کو اقتدار میں لانے کے لیے کی جارہی ہیں وہ پھر عوامی فیصلہ نہیں ہوگا، سیٹوں کی بندر بانٹ میں اب بھی عام انتخابات کا کوئی اتا پتا نہیں۔
پورا ملک نواز شریف کی واپسی کی راہ تک رہا ہے لیکن نواز شریف اور مسلم لیگ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پارہی کہ انھیں واپس کیسے لایا جایا، یہ بھی ایک معمہ بن کر رہ گیا ہے، لیکن ان جماعتوں کے بروقت فیصلے نا ہونے کی وجہ سے عوام اذیت کا شکار ہیں، بیروز گاری بڑھ رہی ہے معیشت کی صورتحال سب کے سامنے ہے، جو ملک چھوڑ کر جانا چاہتے تھے وہ جا چکے ہیں جو لوگ یہاں مقیم ہیں ان کےلیے حالات پریشان کن ہیں، سیاسی کھیل سے جماعتیں باہر آئیں گی تب ہی معیشت کی طرف توجہ دی جائے گی سیاسی جماعتیں حکومت میں آنے کا پلان تو ہر وقت رکھتی ہیں لیکن معاشی پلان کسی کے پاس نہیں ہے۔
اسی لیے کوئی بھی قدم پھونک پھونک کر اٹھایا جا رہا ہے اب صرف سیاسی حالات گھمبیر نہیں ہیں معاشی حالات پر بھی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا، یہ بات تمام سیاسی جماعتوں کو سوچنی ہوگی کہ اب اصل مستقبل سیاسی فیصلوں سے منسوب نہیں ہے معاشی فیصلے ہی عوام کو ان کے ساتھ جوڑے رکھیں گے۔