Aalu Gobhi Ka Ishq Aur Iqbal Ka Shaheen (1)
آلو گوبھی کا عشق اور اقبال کا شاہین (1)

زندہ رہنے کیلئے سب سے پہلی بنیادی شرط معدے کی بھوک مٹانے کیلئے غذا یا کھانے کا میسر ہونا ہے، کھانا پکانے میں اگر محبت شامل ہو تو وہ زبان پر نہیں بلکہ دل پر اترتا ہے، مگر آلو گوبھی؟ جناب یہ تو وہ ڈش ہے جو اگر صحیح بن جائے تو بندہ امی کو کال کرکے بچپن کی یادیں تازہ کرتا ہے اور اگر خراب ہو جائے تو دل کرتا ہے کہ شیف کا موبائل نمکین پانی میں ڈال کر دم پر رکھ دیا جائے۔
خواتین کے ہاتھ میں قدرتی ذائقہ اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے ریستورانوں میں ہر دیگچی کے پیچھے مرد شیف ہی مردِ مجاہد بنا ہوتا ہے، یہ "چمچہ و چاقو بردار استاد" ہر چمچ ہلانے کو فلسفہ اور ہر چھینٹے کو شریعت کا درجہ دیتے ہیں، بات سادہ سی ہے کہ کھانا پکانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور اچھا کھانا؟ وہ تو فنِ لطیف کی اعلیٰ ترین شاخ ہے۔
ایک مشہور شیف حسن لاہوری آف مطعم کراچی بواقع حی البادیہ، حائل، جس کے کھانوں پر ہم ایسے عاشق ہیں جیسے شاعر غزل پر، ایک دن دل چاہا کہ ذائقے کا راز جانا جائے، گولڈ لیف کا ایک سگریٹ عقیدت سے پیش کرتے مدعا عرض کیا "استاد جی، آخر یہ کمال کہاں سے آیا؟"، استاد نے ایک فلسفیانہ نظر ہم پر ڈالی گویا سقراط کو بھی مات دینے والے ہوں اور کچھ لمحے بعد، مجھ ناچیز پر رحم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا "اچھا کھانا وہی پکا سکتا ہے جو اچھے کھانے کا شوقین ہو"۔ واہ استاد، بات سیدھی دل پر جا لگی۔
پھر فرمایا "اچھے کھانے کی پہلی شرط ہے، اچھی کٹائی، جب پیاز، ٹماٹر وسبزی ایسے کٹیں جیسے ہیروں کی تراش ہو، تو کھانا خود بخود شیف کی عزت بچا لیتا ہے اور ہاں، کھانے کے بعد تعریف۔۔ وہ تو فرضِ عین ہے"۔ میں نے فوراً سر ہلایا جیسے کوئی نکتہ ولایت پا لیا ہو اور دل میں پکا ارادہ کر لیا کہ آئندہ ہر نوالے کے ساتھ واہ واہ لازمی ہوگی۔
دل میں علم کی پیاس مزید چنگاریاں مارنے لگی تو ایک عدد سوال اور پھینک دیا، "استاد! مرچ مصالحے کی کیا ترتیب ہو؟ کوئی سادہ سا فارمولا؟" استاد نے ایک کش لیا، دھواں ایسے فضا میں چھوڑا جیسے کوئی جادو ٹونا ہو اور منہ دوسری طرف کر لیا، پیغام واضح تھا "او پگلے! یہ راز بتانے کے نہیں، کمانے کے ہوتے ہیں پھر بھی میں ڈھیٹ بن کر ایک آخری سوال داغ بیٹھا"، استاد، جب بھی آپ مکس سبزی یا آلو گوبھی بناتے ہیں، وہ پتیلا سب سے پہلے ختم کیوں ہوتا ہے؟ آج یہ راز تو بتادیں۔ " استاد نے ایک ٹھنڈی آہ بھری، سگریٹ کی راکھ نیچے جھٹکی، شائد سوچ رہے ہوں "کاش یہ لڑکا صرف کھانے پر دھیان رکھے، رازوں پر نہیں"۔ استاد کی گیانی ہنسی میں جیسے تندور کی گرمی اور سگریٹ کے دھوئیں میں آم کے اچار کی خوشبو ملی ہوئی تھی، انہوں نے سگریٹ کا ایک لمبا سوٹا لیا، جیسے کوئی فنکار اپنا برش رنگ میں بھگو کر کینوس پر پہلا اسٹروک مارتا ہے اور پھر ایسا گیان برسایا جیسے آسمان سے کھانے کی وحی نازل ہو رہی ہو۔
فرمایا "ہر ڈش کے اجزائے ترکیبی اور وقت شمولیت ایسے ہوتے ہیں جیسے قوال کی محفل میں ہر ساز کا اپنا ٹائم اور ٹیمپو ہو، کوئی مصالحہ زود رنج ہو، کوئی ٹماٹر نازک مزاج! اب کچھ لوگ شارٹ کٹ کے چکر میں ایک ہی مرتبہ اکٹھا مصالحہ بنا کر رکھ لیتے ہیں، جسے وہ ہر ہانڈی کیلئے استعمال کرتے ہیں، جیسے کوئی پوری زندگی کے لیے صرف ایک سوٹ سلوا لے، بھئی ہر موقع کا اپنا مزاج ہوتا ہے، ہر ہانڈی کیلئے نئے سرے سے علیحدہ مصالحہ پورے لوازمات کے ساتھ تیار کرنے کا اہتمام لازم ہے" پھر انہوں نے ٹماٹر کے چھلکے کے فلسفے پر روشنی ڈالی، جیسے ٹماٹر نہ ہوئے، کوئی افسانوی کردار ہو "یہ چھلکا ایک راز رکھتا ہے، اگر بھوننے سے پہلے خیال نہ رکھا جائے تو ذائقہ ایسا بدلتا ہے جیسے دلہن کی جگہ دولہے کا دوست آجائے"، گرائنڈر کا ذکر آیا تو استاد نے ایسے ناک چڑھائی جیسے کسی نے بریانی میں کشمش ڈال دی ہو، "ایک ایک چھوٹی چھوٹی چیز کا بروقت خیال رکھنا پڑتا ہے، سب کچھ پیس کر ڈال دو، نمک، مرچ، پیاز، ادرک، لہسن، حتی کہ سوکھا دھنیا بھی ہاتھ پر ٹھیک سے مسلنا پڑتا ہے ورنہ ثابت دھنیا دانتوں میں پھنس کر بہترین کھانے کا مزہ بھی کرکرہ کر دیتا ہے۔۔ ارے بھائی یہ کھانا ہے، کوئی پاور پوائنٹ پریزینٹیشن نہیں، بے ذوق شیف کے ہاتھ کا پکا کھاؤ گے تو پچھتاؤ گے"۔
اور پھر ان کی آواز میں وہی کلاسیکی ساز گونجا اور آلو گوبھی کے اصل راز افشاء کئے، "پہلے پیاز کو ہلکا براؤن بھوننا ایسے ضروری ہے جیسے ہیرو کی انٹری دھواں دھار ہو، پھر لہسن ادرک کا پیسٹ ایسے جھومتا ہے جیسے قوالی میں ہاتھ اٹھتے ہیں اور مصالحہ جب دیگچی کے پیندے سے چپکنے لگے، اس وقت مصالحہ جلنے سے بچانا بہت ضروری ہے، تب پتہ چلتا ہے عشق کسے کہتے ہیں "، آخر میں انہوں نے فیصلہ کن جملہ کسا "یہ آلو گوبھی پکانے کی ایسی ترکیب ہے کہ جو ایک بار کھائے گا، وہ اگلی بار اپنے برتن ساتھ لے کر آئے گا"۔ نہ صرف استاد کا گیان لذیذ تھا، بلکہ انداز بیان ایسا تھا جیسے ریسیپی میں شاعری اور مزاح کا تڑکا لگا ہو، استاد کے بقول "کچھ شیف حضرات خشک مصالحوں کا ایسا طوفان برپا کرتے ہیں کہ کھانے کے بعد معدہ بائیں بائیں کرنے لگتا ہے بلکہ بعض اوقات تو باقاعدہ دھواں دھار کنسرٹ کا آغاز ہو جاتا ہے، آوازیں ایسی کہ بندہ سوچے، "یہ گٹار بجا، یا پیٹ؟ جتنا کم مصالحہ، اتنی زیادہ صحت، یہ اصول شاید سب نہیں مانتے، مگر ماننے والوں کی زندگی ہلکی پھلکی، بغیر انٹی ایسڈ کے گزرتی ہے"۔
اگر آپ پیدائشی ضلع گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں تو کھانے سے عشق کوئی آپشن نہیں، بلکہ ڈی این اے میں شامل ہوتا ہے، پردیس میں البتہ ایسے لوگ کم ملتے ہیں جو کھانا اس انداز سے پکائیں کہ پہلا نوالہ چکھتے ہی بندہ بول اُٹھے "استاد جی، دل جیت لیا"، پردیس میں ایسے شیف کو ڈھونڈنا ایسے ہی ہے جیسے کھیرے کے بیچ سے بادام نکل آئے، کھانے کے شوقین حضرات جانتے ہیں کہ جب بھونا ہوا کھانا ملے، تو منہ سے خود بخود "واہ جی واہ! " نکلتا ہے، بھونے ہوئے کھانے کی خوشبو ناک کے ذریعے دل تک پہنچتی ہے، جیسے زبان کو عید کا تحفہ مل گیا ہو اور دل کہتا ہے "بندہ کھاتا جائے، پلیٹ نہ دیکھے"۔
چھ سات سال تک ہمارا دوستوں کا ایک "عظیم الشان، باقاعدہ اور بے مثال" دعوتی گروپ ہفتہ وار بنیادوں پر ایسا اہتمام کرتا رہا کہ لگتا تھا جیسے ہر ہفتے کسی کی شادی ہے (صرف دولہا اور دلہن کی کمی ہوتی تھی)، ہر بار میزبان اپنی عزت بچانے کے لیے نہیں بلکہ عزت بڑھانے کی غرض سے خرچ کرتا، ایک مرتبہ میری نہایت معصوم اور بظاہر بے ضرر سی فرمائش پر، ایک دوست نے "خصوصی آلو گوبھی" کی ڈش بنوانے کا اعلان کیا، دعوت والے دن دل خوش، پیٹ خالی، سب تیار، لیکن جیسے ہی پہلا لقمہ منہ میں گیا، آنکھوں میں نمی سی آگئی، یہ آنسو خوشی کے ہرگز نہ تھے، ایسا لگا کہ جیسے آلو گوبھی کی بجائے کوئی زنگ آلود پرانا بارود چکھ لیا ہو، اس وقت جو پہلا جذبہ ابھرا وہ غالباً ایسا ہی تھا جیسے کسی فنکار نے مونا لیزا کی فوٹو والی جگہ پر اسٹیکر چپکا دیا ہو یا صدیوں بعد انارکلی زندہ دیوار سے برآمد ہوئی ہو۔