Telegram Aur Baba Ji
ٹیلی گرام اور بابا جی
سوچا تھا دوست احباب کو ایک اطلاعی میسج بھیجوں گا کہ پرائیویسی پالیسی کی وجہ سے ٹیلی گرام میسنجر پر منتقل ہو چکا ہوں، سو وٹس ایپ پہ رابطہ نہ کیا کریں۔ لیکن اس سے پہلے ہی ٹیلی گرام والوں نے کچھ ایسا سبق سکھایا کہ آنکھیں کھل گئیں۔
ہوا یوں کہ کافی عرصہ پہلے ایک صاحب کا نمبر سیو کیا اور وٹس ایپ پہ ان سے بات ہوئی بعد میں وہ نمبر ڈیلیٹ کر دیا۔ پھر پچھلے دنوں موبائل میں ٹیلی گرام میسنجر انسٹال کیا تو چند دن بعد ایک نوٹیفکیشن موصول ہوا کہ وہ صاحب بھی ٹیلی گرام پر منتقل ہو چکے ہیں جن کو ڈیلیٹ کیے بھی ایک عرصہ ہو چکا تھا۔ اور اس میں چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ نوٹیفکیشن میں ان صاحب کا یوزر نیم ظاہر نہیں ہوا بلکہ وہ نام سامنے آیا جو کبھی میں نے محفوظ کیا تھا۔ میری عادت ہے کہ ہمیشہ نام کے ساتھ شہر کا حوالہ بھی محفوظ کرتا ہوں تاکہ شناخت میں آسانی ہو اور ان کا نام بھی شہر کے نام کے ساتھ ہی ظاہر ہوا۔ شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے موبائل اسٹوریج یا پھر گوگل اکاؤنٹ میں ان کا نمبر سیو کیا ہوگا جو کہ ڈیلیٹ ہونے کے بعد بھی وہیں پڑا رہ گیا تو ایسا کچھ نہیں ہے کیوں کہ میں ہمیشہ سم اسٹوریج کا ہی استعمال کرتا ہوں۔
دوستو! اس سے اندازہ لگا لیں کہ وٹس ایپ انتظامیہ جس کام کی اجازت طلب کر رہی ہے وہی سب کچھ دوسری ایپلیکیشنز یا پھر خود ہمارا اسمارٹ فون پہلے سے انجام دے رہا ہے۔ لہذا اب سوچا ہے کہ وٹس ایپ میسنجر ہی استعمال کیا جائے کیوں کہ میرے وہ قومی راز جن کے طشت ازبام ہونے کے ڈر کی وجہ سے، میں وٹس ایپ سے کنارا کرنے کا سوچ رہا تھا وہ سب تو پہلے ہی دشمن کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
انہی دنوں ایک الیکشن مہم کے سلسلے میں وٹس ایپ پر کافی زیادہ وقت گزرا تو ایک اور بات نوٹس میں آئی۔ ہماری نوجوان نسل کہ جن کے کرش وغیرہ کے چکر شکر ہوتے ہیں یہ لوگ وٹس ایپ اسٹوری کا استعمال بھی عین ثواب سمجھ کر کرتے ہیں اور یہاں ایسا ایسا مواد دیکھنے کو ملتا ہے کہ بے اختیار جوان ہونے کو جی چاہتا ہے اور اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ وٹس ایپ کی اندرونی دنیا کس قدر رنگین ہے۔ یہ آئے روز کے ویڈیو اسکینڈلز، اس کے تانے بانے کہیں انہی ایپلیکشنز سے جا کر ملتے ہیں اور اس حوالے سے میرا مشورہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل جو کہ وٹس ایپ کو ایسے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے آئندہ سے وٹس ایپ تو ایک طرف اسمارٹ فونز پر بھی ایسی حرکتوں سے گریز کرے اور کوئی دوسری راہ نکالے۔
دیکھیے، میں یہ نہیں کہوں گا کہ آپ ایسی حرکتوں سے باز آ جائیں کہ ناقابل عمل باتوں کی تاکید کرنا میرا مزاج نہیں۔ ہاں آپ کے بڑے ایسی باتیں کرتے اچھے لگتے ہیں اور ان کی بات میں اثر بھی ہوتا ہے لیکن میں چونکہ آپ کا دوست واقع ہوا ہوں اس لئے مجھے ایسے پند و نصائح سے مبرا جانیے۔ ہاں، ایک واقعہ لکھ رہا ہوں خود ہی کچھ اخذ کر لیجیے گا۔
یہ اسمارٹ فونز سے پہلے کا زمانہ تھا۔ ایک بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا عرض کی، اللہ والیو! بہک بہک جانے کو جی چاہتا ہے اور انسان ہوں، بندہ بشر ہوں سو کبھی کبھار پاؤں پھسل بھی جاتا ہے لیکن پشیمانی ہے کہ جان نہیں چھوڑتی۔ کچھ ایسا بتائیے کہ بس پاک صاف ہو جاؤں۔ بابا جی دھیرے سے مسکرائے، فرمانے لگے پتر! تیرا باپ آدم خدا کا نبی تھا۔ رب سوہنے نے خود اسے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔ بچوں کی طرح اسے بولنا چالنا سکھایا، پھر رہنے کو جنت کے باغات دیے۔ کھانے کو طرح طرح کے میوے، ہر طرف نعمتیں ہی نعمتیں۔ لیکن آدم پھر بھی بہک گیا۔ اور توں بھی تو اسی آدم کا بیٹا ہے توں نے یہ کیسے سوچ لیا کہ توں نہیں بہکے گا۔ نہ تو توں نبی ہے نہ ہی توں نے کسی نبی کو دیکھا ہے توں نے تو خدا کو بھی نہیں دیکھا۔ ایک اس جنت کی آس میں جو توں نے کبھی دیکھی ہی نہیں اور توں سمجھتا ہے کہ وہ تجھے بہکنے سے باز رکھ سکے گی۔ ناں پتر جی ناں، یہ تیری خام خیالی ہے۔ توں نے بہکنا ہے اور لازمی بہکنا ہے لیکن ایک کام کریو ابلیس کی طرح دلیر نہ ہو جائیو بلکہ جب کبھی بہکیو تو آدم کا بیٹا ہونے کے ناطے اپنے ان دیکھے اور سچے رب کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیو، وہ سب معاف کر دے گا۔
میں چونکہ کچا تھا سو سوال کر دیا بابا جی! کچھ لوگ ایسے بھی تو ہیں ناں، جو نہیں بہکتے۔ بابا جی کہنے لگے، ہاں پتر ہزار میں کوئی ایک آدھ دانہ ایسا بھی ہوتا ہے جن پر رب سوہنے کا خاص کرم ہوتا ہے۔ لیکن ایک بات یاد رکھیو جب اس نیک روح کے دل میں یہ خیال آ جائے کہ وہ چنیدہ ہے اور بہک نہیں سکے گا تو پھر لکھ رکھیو کہ وہی سب سے زیادہ بہکا ہوا ہے۔ پتر! یہ نیک ہونے کی بو بڑی بری ہوتی ہے اور رب سوہنا کبھی ایسے بندے کو پسند نہیں کرتا۔ شان پتر! تیرا کام بس یہی ہے کہ توں گناہ کرتا جائیں اور پشیمان ہوتا جائیں ایک وقت آئے گا جب وہ خود تجھے گناہوں کی دلدل سے نکال باہر کرے گا۔ لیکن تب بھی یہ نہ سوچنا کہ توں نیک ہو چکا ورنہ تیری ساری نیکیاں تیرے منہ پر مار دی جائیں گی۔
یقیناً آپ محسوس کر رہے ہوں گے کہ آج کے کالم میں کچھ کمی سی ہے تو اخبار ایک طرف رکھیے اور چائے کا کپ یا سگریٹ سلگائیے اور کچھ اخذ کر لیجیے کہ میرے پاس تو اب کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں۔