Molana Tariq Jameel Per Khuda Ka Azab
مولانا طارق جمیل پر خدا کا عذاب
مولانا طارق جمیل کا شمار ان معدودے چند علماء اکرام میں ہوتا ہے جنہوں نے مذہب کے پلیٹ فارم سے ہمیشہ محبتیں بانٹی ہیں اور امت کو جوڑنے کی بات کی ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں منبر کا استعمال شاید کیا ہی نفرتیں پھیلانے کے لئے جاتا ہے اور اہل منبر کی کوشش رہی ہے کہ اس کار خیر میں حصہ اپنے جثے سے زیادہ ہی ڈالیں۔ اور پھر یہیں پر بس نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے طبلچی ایسی با کمال تاویلیں سامنے لاتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے یا تو واقعی یہ بے وقوف ہیں یا پھر مہا بے شرم ہیں۔ اگلے روز کی بات ہے ایک مولانا کے ساتھ چائے پینے کا اتفاق ہوا۔ فرمانے لگے ہمارے علامہ مرحوم کی گالیوں میں بھی حکمت تھی۔ اللہ، اللہ، اس دن اندازہ ہوا کہ گوبر کو حلوہ کہنے کے لئے کم عقلی کے ساتھ ساتھ غیرت کی کمی بھی انتہائی ضروری ہے۔
خیر! بات ہو رہی تھی مولانا طارق جمیل کی۔ دوستو! جب کورونا وائرس کا نزول ہوا تو آپ کو یاد ہوگا کہ ہر ایک نے اپنے اپنے باجے کے مطابق راگ الاپا تھا۔ ایسے میں مولانا موصوف کا ایک بیان بہت مشہور ہوا تھا جس میں آپ جناب فرما رہے تھے کہ یہ وائرس اللہ کا عذاب ہے جو کہ فحاشی کی وجہ سے آیا ہے۔ اور پھر اس کے فوراً بعد دو گروہ میدان کار زار میں کود پڑے۔ ایک گروہ مولانا کی مخالفت میں جب کہ دوسرا دفاع میں۔ اور پھر اللہ کے فضل سے ہر دو گروہوں نے عوام کے لئے خوب تفریح کا سامان کیا۔ مخالف گروہ نے مولانا کی ذات کو لے کر کچھ ایسا طوفان بدتمیزی برپا کیا کہ مولانا نے تو صرف وائرس کی مد میں بے پر کی ہانکی تھی۔ لیکن یہ گروہ واقعی خدائی عذاب ثابت ہو رہا تھا۔ جب کہ دوسرا گروہ جو حقیقی معنوں میں اخلاق کے بلند درجے پر فائز حضرت مولانا طارق جمیل کے دفاع پر معمور تھا ان لوگوں نے بھی ثابت کر دیا کہ بے شک ہم نام لیوا تو مولانا کے ہیں لیکن اخلاقیات میں ہم نے بھی ان سے کچھ فیض حاصل نہیں کیا۔
موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔ دراصل مولانا کی کوئی بھی بات اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ جس پر جھگڑا کیا جائے۔ بالفرض، اگر ایک مشہور شخصیت سمجھ کر جواب آں غزل کے طور پر تھوڑا بہت واویلا کیا بھی گیا تھا تو مقابلے میں مولانا کے حامیوں کو ہی خاموشی اختیار کر لینی چاہئیے تھی کہ غلطی آخر انسان سے ہی ہوتی ہے۔ اگر مولانا جوش خطابت میں کچھ زیادہ کہہ بھی گئے تھے تو بھی وہ ایک عالم دین ہی تھے کوئی مامور من اللہ نہیں تھے۔ لہذا ان کی کہی گئی بات ان کی ایک رائے ہو سکتی تھی لیکن اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ بے شک اپنی رائے دیتے ہوئے مولانا قرآن مقدس کی آیات کو ہی سامنے کیوں نہ رکھتے ہوں۔ آیات کا ذکر سن کر شاید آپ چونک گئے ہوں کہ کہیں میں قرآنی آیات کو ہلکا لے رہا ہوں، تو ایسی بات نہیں ہے۔ اس کے لئے ایک تازہ مثال سے سمجھنے کی کوشش کیجیے۔
پرسوں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جنم دن تھا یعنی کرسمس۔ اس تہوار کو لے کر پچھلے چند سالوں سے اسلام کے مذہبی طبقے کی طرف سے یہ شوشہ چھوڑا جاتا رہا کہ مَیری کرسمس کہنا غلط ہے کیوں کہ اس کا مطلب ہے پاک مریم نے شادی کی وغیرہ وغیرہ۔ پھر جب ان الفاظ کو لے کر زمانے بھر کی لغات کھنگالی گئیں اور بجز ایک مرے ہوئے چوہے کے کچھ برآمد نہ ہو سکا۔ تو امسال ایک نیا اسٹنٹ چھوڑا گیا کہ آیات مقدسہ کو بے موقع، کرسمس کے ساتھ نتھی کیا جانے لگا۔ اور یہ سوانگ صرف اس لئے رچایا گیا کہ مولویوں کی رنگ بازیوں کا پھر کوئی نہ کوئی اللہ لوک جواب دے ہی دیتا ہے۔ لیکن قرآن پاک کا تو سب مسلمان احترام کرتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ یہی ایک ایسی کتاب ہے جس میں سب سچ لکھا ہے۔ لہذا پھر اس کو اس طرح سے استعمال کیا گیا کہ کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔
اس فلاپ ڈرامے بازی کے پس منظر کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ پاکستان میں چھیانوے فیصد مسلمان ہیں اور یہی لوگ ایک دوسرے کو کرسمس کی مبارک باد دے رہے تھے اور شاید ہی کسی نے مسیحیوں سے خیریت دریافت کی ہو۔ خیر! قرآن پاک کی آیات تو انہی کو سنائی جا رہیں تھی نا جو اس پر ایمان رکھتے ہیں نا کہ مسیحیوں کو۔ اب مذہبی طبقوں کی طرف سے یہ کہا جانے لگا کہ آپ مسلمان جب کرسمس کی مبارک باد دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اللہ کے بیٹا جننے کی مبارک باد دے رہے ہیں۔ اب ان عقل کے اندھوں کی حماقت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جو مبارک باد دے رہے ہیں ان کا مدعا ہے کہ وہ صرف پیغمبر عیسیٰ کی پیدائش کی مبارک دے رہے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف مذہبی طبقہ جو کہ مبارک دے بھی نہیں رہا بلکہ مخالفت کر رہا ہے ان ڈیڑھ سیانوں کو مبارک باد دینے والوں کی نیت کا حال بھی معلوم ہو چکا ہے کہ جی یہ خدا کے بیٹے کی مبارک باد ہے۔ اور اس موقع پر ایک میسج بھی گردش میں ہے کہ پچیس دسمبر کے دن کا پیغام سورۃ اخلاص ہے۔ اب بنتا تو یہ ہے کہ جو سورۃ اخلاص کے منکر ہیں ان کو جا کر یہ آیات سنائی جائیں اور دعوت دی جائے۔ لیکن جو وحدہ لاشریک کے ماننے والے ہیں اور صرف ایک سچے پیغمبر کی ولادت منا رہے ہیں ان کو یہ آیات دکھانے سے کیا حاصل۔
عزیز دوستو! بس اب ایسے ہی قرآن پاک کا استعمال کیا جاتا ہے یعنی صرف مقابل کو زیر کرنے کے لئے اور وہ بھی بے تکا۔ اور صرف اس لئے کہ جو لوگ اب مولویوں کی باتوں پر کان دھرنے کو تیار نہیں ان کو قرآن کی مار ماری جائے۔ وہ ایسے کہ خود ہی پس منظر ترتیب دے کر پھر خود ہی اس میں آیات فٹ کر دی جائیں اور پھر قرآن پاک کا احترام کرنے والے سادہ لوح مسلمان ان مولویوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں۔
اب ذرا مولانا کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ جنہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنے بیان سے رجوع کر لیا ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ جب بلی کے پاؤں جلتے ہیں تو اپنے ہی بچوں کو نیچے رکھ لیتی ہے۔ بس جی یہاں بھی وہی معاملہ ہوا ہے۔ مولانا کی ایک ویڈیو جاری ہوئی ہے جس میں فرما رہے ہیں کہ کورونا وائرس نے مجھ پر بھی حملہ کیا ہے اور یہ اتنا سخت وائرس ہے کہ اللہ کی طرف سے امتحان ہے۔ دوستو! جب وائرس ہمیں ستا رہا تھا تو اللہ کا عذاب تھا اور مولانا کے تالی پیٹ بھی قوالی میں مکمل طور پر ان کے ہمنوا بنے ہوئے تھے۔ جب کہ آج ان تک پہنچتے پہنچتے یہ وائرس عذاب سے بلا، آفت اور امتحان میں منتقل ہو چکا ہے۔ سبحان اللہ، کیا شان پائی ہے حضرت نے۔ واقعی امتحان تو اللہ کے نیک بندوں کے لئے ہوتے ہیں۔ جب کہ عذاب تو صرف کالے منہ والے غریب عوام کے لئے ہوتا ہے۔
دراصل میرے مخاطب مولانا نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو مولانا کی مخالفت کرتے رہے ہیں یا پھر ہاں میں ہاں ملاتے رہے ہیں۔ ان سب لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ چاہے وہ مولانا طارق جمیل ہوں یا کوئی بھی دوسرا عالم دین۔ ان لوگوں کی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے بلکہ ایک خطاء کے پیکر انسان کی بات ہی سمجھنی چاہیے یا اپنے ہی جیسے کسی دوسرے انسان کی ذاتی رائے نہ کہ حکم خداوندی۔ امید ہے باشعور لوگوں کو بات سمجھ آ گئی ہو گی۔ لیکن جن کو سمجھ نہیں آ سکی وہ خوب جی بھر کر، دل میں گالیاں نکال سکتے ہیں۔