Masoom Umar Rathore Hamara Muntazir Hai
معصوم عمر راٹھور ہمارا منتظر ہے
صاحبو! کیا ہم نے کبھی سوچا ہے ظلم و جبر کی کوئی ایسی داستان کہ انسانیت بھی جس پر شرما جائے اور وقتی طور پر ہمیں بھی جھنجھوڑ کر رکھ دے، پھر ہماری اٹھائی گئی آوازوں کی بدولت ارباب اختیار بھی خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں، لیکن بعد میں ان داستانوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ کیوں کہ ہم تو کسی اور واقعے کی طرف متوجہ ہوئے آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں۔ آئیے، آج ایسے ہی ایک واقعے کو دیکھتے ہیں۔
اسلام آباد کے علاقے بارہ کہو کا رہائشی یہ بچہ نرسری کا سٹوڈنٹ تھا۔ جسے 21 دسمبر 2019ء کو گھر کے قریب سے اغواء کیا گیا۔ معصوم عمر راٹھور کا سراغ اگلے تین روز بعد ملا جب شک کی بنا پر مقتول کے ہی ایک عزیز، محلے دار سے پوچھ گچھ کی گئی۔ ہوا یوں کہ روٹس کالج میں اے لیول کے سٹوڈنٹ حمزہ جہانگیر نے اپنے تین دوستوں کے ہمراہ بیس لاکھ تاوان کے لئے اس معصوم کو اغواء کیا۔ لیکن پھر پکڑے جانے کے خوف سے بغیر تاوان کا مطالبہ کئے ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کمسن کو مارنے کے لئے پہلے اسے کئی روز کپڑوں کی الماری میں بھوکا پیاسا بند رکھا گیا لیکن جب یہ کوشش کارگر نہ ہوئی تو پھر اس کے منہ اور ناک کو سکاچ ٹیپ سے بند کیا گیا اور سانس رکنے اور بیہمانہ جسمانی تشدد کی بدولت بچے کی موت واقع ہوگئی۔
صاحبو! دسمبر 2019ء میں واقع ہوئی ظلم کی اس داستان کو قومی میڈیا پر خاصی کوریج ملی اور یہ واقعہ بریکنگ نیوز اور کالمز کی زینت بنا رہا۔ انسانی حقوق کے نمائندوں نے اس ظلم کے خلاف ریلیاں نکالیں اور احتجاجی مظاہرے کیے اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی عمر راٹھور کا ٹاپ ٹرینڈ چلتا رہا جس باعث تمام ملزمان کی گرفتاری فی الفور عمل میں لائی گئی۔
آج 20 دسمبر 2020ء ہے اور اس واقعے کو گزرے ایک سال ہو چکا ہے لہذا ہم بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔ لیکن 21 دسمبر 2019ء کو شروع ہونے والی ظلم کی اس داستان کا سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے۔ مقتول عمر راٹھور کا والد مختار راٹھور ایک اوسط درجے کا سرکاری ملازم ہے اور اپنے بیٹے کے قتل کے بعد وہ اپنے ہی علاقے میں اجنبی ہو گیا ہے کیوں کہ بچے کے چاروں قاتل بھی اسی محلے کے رہائشی ہیں جو کہ امیر اور بااثر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا مقتول عمر راٹھور کی فیملی کو علاقہ بدر ہونا پڑا ہے اور آج وہ اسلام آباد کے مضافات میں کسی نامعلوم مقام پر دھکے کھانے پر مجبور ہے۔ اس کے علاوہ واقعے کے دو عینی شاہدین میں سے ایک عمر راٹھور کے تایا ہیں جب کہ دوسرا گواہ ایک ہمسائیہ ہے اور اب اس ہمسائے کو بھی مختلف حیلوں بہانوں سے پریشرائز کیا جا رہا ہے جس باعث وہ گواہی سے منحرف ہونے کا سوچ رہا ہے کیوں کہ معصوم عمر راٹھور تو مر چکا ہے لیکن وہ عینی شاہد اپنے بچوں کی زندگیاں خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا۔
ملزمان کے خاندان مضبوط سیاسی بیک گراونڈ کے حامل ہیں لہذا مقتول کی فیملی پر بھی کافی دباؤ ہے اور معصوم عمر راٹھور کی تعلیم حاصل کرتیں نوجوان بہنیں الگ سے خوف اور دباؤ کا شکار ہیں۔ جب کہ دوسری طرف مقتول کا باپ مقدمہ کی پیروی کرتے کرتے لاکھوں کا مقروض ہو چکا ہے کیوں کہ ارباب اختیار کی جانب سے نوے روز میں کیس کا فیصلہ سنانے کا عندیہ دیا گیا تھا جب کہ آج پورے تین سو پینسٹھ روز بیت چکے ہیں اور ہنوز دلی دور است۔ بے شک فاضل جج صاحب اس کیس میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں اور کیس کو ترجیحی بنیادوں پر سن رہے ہیں لیکن ملزمان کی فیملی کیس کو لٹکانے کے لئے مختلف روایتی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ کبھی کسی ملزم کا وکیل پیش نہیں ہوتا اور کیس کو طول دینے کے لئے کبھی کسی دوسرے ملزم کی طرف سے وکیل بدل دیا جاتا ہے۔
آج معصوم عمر راٹھور کی برسی ہے اور اس ایک سال میں مقتول کا خاندان دکھوں اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ جب کہ آج کے کالم میں عمر راٹھور کو عنوان ہی اسی لئے بنایا گیا ہے کہ کم از کم اس برسی کے موقع پر تو ہم اسے یاد رکھیں اور مظلوم کے حق میں صدائے احتجاج بلند کریں۔ ایک سال بیت جانے کے بعد آج بھی معصوم عمر کی بے چین روح ہماری راہ تک رہی ہے اور انصاف کی منتظر ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ مظلوم کے حق کی داد رسی کے لئے آواز بلند کریں کیوں کہ چار سالہ مقتول عمر صرف مختار راٹھور کا ہی بیٹا نہیں بلکہ ہم سب کا بیٹا ہے اور اگر آج ہم اس معصوم کی آواز نہ بن سکے اور اس کو انصاف نہ دلا سکے تو کل کو کوئی ہمارا عمر راٹھور بھی کسی ظالم کے ظلم کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔
اس لئے خدارا آج اس کی برسی کے موقع پر ہم مظلوم ورثاء کی آواز بنیں کہ شاید ہماری کسی کوشش سے ارباب اختیار کو کچھ ہوش آ جائے کیوں کہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ہائی لائٹ ہونے کے باوجود بارہ کہو کے ہمسائے میں رہنے والے ریاست مدینہ ثانی کے والی جناب عمران خان کو تو اس کی خبر نہیں ہو سکی لیکن ہو سکتا ہے سوشل میڈیا پر احتجاج ریکارڈ کروانے سے انہیں بھی ہوش آ جائے اور پھر مقتول کو جلد سے جلد انصاف مل سکے۔ لہذا پرنٹ میڈیا یا سوشل میڈیا، جہاں بھی آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں خدارا اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں۔ تا کہ کل کو ہمارے بچے بھی کسی ظالم کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔ خدا ہم سب کے بچوں کا حامی ہو۔