Janwaron Ke Abbu Na Baniye
جانوروں کے ابو نہ بنیے
اس کے والد کا نام ابراہیم تھا خود اس کا اپنا نام اسماعیل ہے۔ باپ بیٹے کے یہ نام دو عظیم پیغمبروں کی نسبت سے تھے جو خدا کے آخری نبی محمد الرسول اللہ ﷺ کے جد امجد تھے۔ چاچا ابراہیم تو بڑے نیک اور پرہیزگار انسان تھے ساری زندگی انہوں نے خدا کے آگے سر جھکائے رکھا لیکن اسماعیل شاید اپنے باپ کے کسی گناہ کا نتیجہ تھا۔ اور اس بات کا اعتراف چاچا ابراہیم اپنی زندگی میں بھی کیا کرتے تھے بلکہ مرتے وقت انہوں نے اپنے بیٹے کے آگے ہاتھ باندھ کر نصیحت بھی کی تھی کہ بیٹا یہ چار دن کی زندگی ہے، کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد آخرکار اپنے رب کے حضور پیش ہونے لگا ہوں اور یہ وقت تم پر بھی آنا ہے لہذا عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ بندے کے پتر بن جاؤ، سرکشی سے توبہ کر لو اور لوٹ آؤ اس رب کی طرف جو ہم سب کا مالک ہے۔ لیکن اسماعیل بہت سیانا تھا سو باپ کی باتوں کا اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ دراصل اسماعیل سمجھتا تھا کہ اس کا باپ ایک ان پڑھ آدمی ہے گاؤں کے میاں جی نے اسے جو سبق پڑھا دیا ہے بس اس سے آگے کا یہ سوچ بھی نہیں سکتا جب کہ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہوں، شہری بابو ہوں، مجھ پر سب حقیقتیں کھل چکی ہیں اور مذہب اسلام ایک کہانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
لیکن اصل ٹریجڈی یہی تھی جو آج کے ہر دوسرے لبرل کے ساتھ ہے دراصل اسماعیل علماء دین کی جھوٹی تقریروں اور اکابرین کی من گھڑت باتوں کو ہی دین اسلام سمجھ بیٹھا تھا اور اس نے یہ تردد کرنا مناسب ہی نہ سمجھا کہ ان سوداگروں کی باتوں میں آنے کی بجائے یا ان کی عینک اتار کر خود سے قرآن پاک کا مطالعہ کرے۔ بہرحال اسماعیل نے اپنے اوپر واپسی کا راستہ بند کر رکھا تھا اور اب حال یہ تھا کہ اسے اسلام اور مسلمانوں سے اس قدر چڑ ہو چکی تھی کہ ہر اسلامی تہوار کے موقع پر اسے کچھ نہ کچھ اعتراض سوجھ جایا کرتا تھا اور ان اعتراضات کی شوخیوں میں بہت سے بے وقوف مسلمان بھی نام نہاد لبرل ازم سے متاثر ہو کر اسماعیل کے ساتھ ہو لیا کرتے تھے۔
اس عیدالاضحیٰ پر بھی اسماعیل صاحب نے جوتیاں کھانا مناسب سمجھا لہذا انہوں نے ارشاد جاری کیا کہ مسلمان جانوروں کو ذبح کر کے ان پر ظلم کرتے ہیں اور جانوروں کے قتل عام سے معاشرے کی نفسیات پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جب کہ خود انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ مسلمانوں کے ملک میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے تو ان کی ایسی احمقانہ باتوں سے بھی مسلم کمیونٹی کا دل دکھتا ہے اور اس سے بھی معاشرے کی نفسیات پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اور دوسری طرف اسماعیل کی منافقت کا یہ عالم تھا کہ یہ مکڈونلڈ کے چکن برگرز بھی شوق سے کھاتا تھا، کے ایف سی پر حاضری بھی لگواتا تھا۔ اس کے کچن میں مٹن نہاری، بیف پلاؤ اور سری پائے بھی بنا کرتے تھے شادی بیاہ کے موقع پر اپنی پلیٹ قورمے سے بھرنا بھی کار ثواب سمجھتا تھا لیکن خدا جانے اس وقت اس کی رحم دلی کہاں چلی جاتی تھی۔ پتا نہیں اس وقت یہ جانوروں کا ابو کیوں نہیں بنا کرتا تھا۔ میں تو کہتا ہوں اسماعیل چاچے ابراہیم کا بیٹا نہ بھی ہوتا بلکہ سات پشت پیچھے اپنے آباء کی طرح ہندو بنیا ہی رہتا کہ جنہیں بکرے کے گوشت سے تو بو محسوس ہوتی ہے لیکن گاؤ موت پینے میں بڑا مزہ آتا ہے تب بھی اس کا اعتراض کرنا بنتا ہی نہیں تھا۔ کون سا مسلمان اس کے باپ کے پیسوں سے قربانی کیا کرتے تھے یا جانور اس کے باڑے سے کھول کے لایا کرتے تھے جو اسے اتنی مرچیں لگا کرتی تھیں یا کون سا مسلمان اسے بھی قربانی کرنے پر مجبور کیا کرتے تھے۔
صاحبو! کہنا یہی تھا کہ آپ کو بھی اپنے اردگرد بہت سے لوگ اسماعیل کی طرح کے مل جائیں گے ان کی باتوں پر دھیان نہ دیا کریں یہ خبطی لوگ ہیں جو کہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں ورنہ سچ تو یہ ہے کہ ان بے چاروں کی تو کوئی گھر میں بھی نہیں سنتا لہذا یہ آپ کو ہی ستائیں گے نا۔ لیکن آپ ان کی پرواہ نہ کیا کریں۔ اور جو سیانے کہتے ہیں کہ جانوروں کو ذبح کرنا ظلم ہے ان سے کہیے اگر یہ ظلم ہے تو پھر ہم واقعی ظالم ہیں اور انشاءاللہ قیامت کی صبح تک یہ ظلم کرتے رہیں گے۔ مسلمانو! جان لو، تم یہ ظلم جانوروں پر نہیں کر رہے بلکہ ان سیانوں پر کر رہے ہو اور خوب کر رہے ہو۔
آخر میں اسماعیل صاحب کے حضور عرض کروں گا کہ اگر آپ یوں بات پہ بات مسلمانوں کے معاملات میں ٹانگ اڑایا کریں گے تو پھر آپ میں اور دو رکعت کے مولوی میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا اور آپ کا لبرل ازم اور سیکولر ازم کا دعویٰ بھی دھرے کا دھرا رہ جائے گا لہذا آپ اپنے کام سے کام رکھیے اور ہمیں بھی اپنا کام کرنے دیجیے۔