Aur Israel Fatah Ho Gaya
اور اسرائیل فتح ہو گیا
ان کا نام علامہ فہد رضی ہے۔ تحریک لام کے یہ آبائی چیئرمین ہیں آبائی اس لئے کہ پہلے ان کے ابا جی اس جماعت کے امیر تھے ان کی وفات کے بعد یہ چئیرمین منتخب ہوئے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ فہد رضی کی وفات کے بعد ان کا بیٹا ہی امارت کی کرسی سنبھالے گا۔ بہرحال عوام علامہ فہد رضی کو چھوٹا امیرالمجاہدین کے نام سے بھی جانتے ہیں یعنی کہ امیرالمجاہدین ساشے پیک میں۔
علامہ فہد رضی امت مسلمہ کا خالص درد اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں ان کا یہ بیان بہت مشہور ہوا جس میں وہ بیت المقدس میں جمعہ پڑھنے کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے۔ رمضان المبارک کے سیزن میں جب اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے تو علامہ فہد رضی نے جلد سے جلد نماز تراویح میں قرآن پاک کا ختم دلایا اور اپنا سیزن پس پشت ڈالتے ہوئے فلسطین کی راہ لی۔ ان کے ہمراہ تحریک لام کے ہزاروں جانثاران بھی موجود تھے۔ لشکر کا پہلا پڑاؤ غزہ کی پٹی پر ہوا۔
اسی دوران پاکستان کی ایک دوسری مذہبی جماعت بھی اسرائیل کو فتح کرنے کے لئے یہاں پہنچ چکی تھی۔ اس جماعت کا نام جماعت باہمی ہے۔ اس جماعت کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر شعبۂ زندگی کے لوگ اس جماعت میں شامل ہیں۔ وہ اس طرح کہ ان کے بڑے بڑے لیڈران اور قائدین کے بچے بالے سب کے سب پڑھے لکھے اور جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں اور یہود و ہنود کو اس میدان میں چاروں شانے چت کرنے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ اس جماعت کے غریب خدمت گزار اور ان کے بچے جنگی محاذ پر دشمن کو ناکوں چنے چبوانے پر مامور ہیں۔ غریب جانثاروں نے جہاد و قتال میں اپنی نسلیں سنوار لی ہیں جب کہ امراء و قائدین کے بچوں نے جدید مغربی تعلیم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دی ہیں۔ اللہ اللہ کیسا جذبۂ ایمانی ہے۔
وطن عزیز میں جماعت باہمی ہر جمعے کو مساجد کے باہر اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا کرتی تھی کم از کم میں نے تو بچپن سے یہی معمول دیکھا ہے۔ بہرحال جب انہیں اطلاع ملی کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پر حملہ کر دیا ہے تو ان لوگوں نے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور غزہ کی راہ لی۔ عید کے موقع پر ایک دفعہ پھر جب اسرائیل نے حملے کی غرض سے فلسطین کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تو انہیں اندازہ ہوا کہ پاکستان سے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ان جماعتوں کے کارکنان پہنچ چکے ہیں اور بس اسرائیل پر ایک زور دار حملے کی غرض سے پر تول ہی رہے ہیں۔
امید تو یہ تھی کہ اسرائیل پاکستانی مجاہدین پر حملہ کر دے گا۔ لیکن ہوتا تو وہی ہے نا جو خدا کو منظور ہوتا تھا لہذا وہی ہوا۔ ہوا یہ کہ جب اسرائیل نے دیکھا کہ اس دفعہ صرف ان جماعتوں کے غریب کارکنان ہی ہمارے خلاف صف آراء نہیں ہوئے بلکہ اب کی بار ان کے قائدین اور ان کی پڑھی لکھی اولاد بھی سر پر کفن باندھے ہمارے خلاف میدان میں کود چکی ہے تو باطل کے حوصلے پست ہو گئے اور آخرکار حق غالب آ گیا، بے شک حق کو ہی غالب آنا تھا۔ لہذا اسرائیل نے اسی دم سرنڈر کر دیا اور پوری امت مسلمہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی یعنی چھوٹی عید پر بڑی خوشی مل گئی۔
اب علامہ فہد رضی کی خواہش تھی کہ بیت المقدس میں جمعہ پڑھایا جائے لیکن انہیں ایک اور فکر لاحق ہو گئی کہ اگر ہم یہاں جمعہ پڑھانے لگ گئے تو پیچھے کہیں ہماری مساجد میں دشمن یعنی مسلک ناحق کے لوگ قبضہ نہ کر لیں۔ اور اب اگر انہوں نے بیت المقدس کو اسرائیل اور یہودیوں سے آزاد کروا ہی لیا ہے تو یہ بھی ان کا فرض ہے کہ پیچھے گھروں میں جو اصل دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے اس سے بھی نمٹا جائے لہذا اسی مجبوری باعث انہیں واپسی کا قصد کرنا پڑا اور بیت المقدس میں جمعہ ادا کرنے کی ان کی دیرینہ خواہش دم توڑ گئی۔ لیکن کوئی بات نہیں، اگلی بار سہی۔
دوسری طرف جماعت باہمی بھی بیت المقدس کے باہر جمعے کے بعد احتجاج کا میلا نہ لگا سکی کیوں کہ ان کی بھی مجبوری تھی اگر یہ لوگ وہیں پہ احتجاج کرنے بیٹھ جاتے تو پیچھے پاکستان میں جمعے کے بعد کوئی رونق میلا نہ لگ سکنا تھا۔ لہذا پاکستانی عوام کی تفریح کا لحاظ رکھتے ہوئے جماعت باہمی کے کارکنان نے بھی ٹکٹس بک کروائے اور واپسی کی راہ لی۔
دوستو! یوں ہمارے مجاہدین کی کامیاب حکمت عملی سے اسرائیل بھی فتح ہو گیا اور دوسری طرف ہمارے پاکستانی مورچے بھی مسلک ناحق کی شر انگیزیوں سے محفوظ رہ سکے۔