Sialkot Ke Sarhadi Gaun Aur Yaadein
سیالکوٹ کے سرحدی گاؤں اور یادیں
مجھے سیالکوٹ کے وہ آخری سرحدی گاؤں یاد آگئے جہاں ہم بچپن میں رشتہ داروں سے ملنے جایا کرتے تھے۔ وہ پی ٹی سی ایل کا دور تھا تب ہم رشتہ داروں سے روز بات نہیں کرتے تھے لیکن سال میں ایک یا دو بار مل ضرور لیا کرتے تھے۔ تب رابطے محدود اور رشتے مضبوط ہوا کرتے تھے۔
لوگوں میں محبت تھی، خلوص تھا اور اپنائیت تھی۔ سب ایک دوسرے کا بہت کرتے تھے۔ پھر ٹیلی فون آیا جس کے بعد بظاہر تو رشتے نزدیک ہوگئے لیکن ملنے سے ہم کوسوں دور ہو گئے۔
اس ریلوے لائن سے اپنے ایک رشتہ دار یاد آئے تھے جو کہ اُس آخری گاؤں میں رہتے تھے جہاں سے یہ پٹری حالیہ جموں میں داخل ہوتی تھی۔ سیالکوٹ سے بظاہر جموں کا فاصلہ بمشکل بیس کلومیٹر ہوگا لیکن یہ بیس کلومیٹر طے کرنے میں اب بیس دہائیاں لگ جائیں گی۔
تو اس گاؤں میں سے جہاں سے یہ پٹری بھارتی سرحد میں داخل ہوتی تھی تو وہاں عین کنارے پر گھر تھے۔ سامنے بند تھا جو کہ بیس فٹ تک کا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹاور تھا۔ جہاں سے آپ سامنے سرحد پار دیکھ سکتے تھے۔ عموماََان گاؤں دیہاتوں میں فوجی گاؤں کے بڑوں کو جانتے ہیں سو ہمارے انکل کو بھی جانتے تھے اور وہاں سے بارڈر پار دیکھنے میں کھلی آزادی تھی۔
بارڈر پار دیکھنے کا یہ منظر میرے لئے کافی مسحورکن ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نارووال کے انٹرنیشنل بارڈر سے لے کر سیالکوٹ کے بارڈ تک شائد ہی کوئی گاؤں چھوڑا ہو، ہر جگہ آوارہ گردوں کی طرح گھوم پھر کر منہ منوں مٹی سے خود کو آلودہ کیا ہے اور دکھوں کے مناظر سے آنکھوں کے آنسو اس مٹی کے نیچے چھپائے ہیں۔ وہ آنسو جو بظاہر ایک عام شخص کو نکلنے پر عام سے لگیں لیکن میرے لئے خاص تھے کیونکہ میں وہ دکھ جانتا تھا جو بارڈر کی اس لکیر نے ہمارے خطے کو دئیے ہیں۔
سیالکوٹ کے ان علاقوں میں موجود جو گاؤں ہیں وہاں صبح کا منظر کافی دلکش ہوتا تھا۔ خاص کر گرمیوں کی صبح کا، جب ہلکی ہلکی دھند اور خنکی ایک ساتھ ملتی تھی۔ وہیں سامنے مشرق سے سورج جموں کی پہاڑیوں سے اپنا سر باہر نکال رہا ہوتا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے سورج کہہ رہا ہو کہ زمین والو تم جتنی مرضی باڑیں لگا لو، جتنی مرضی سرحدیں بنا لو، میری روشنی سے تم سب ایک برابر روشن ہوگے۔ میں نکلوں گا تو جموں سے لیکن میری کرنیں سیالکوٹ کے سب گاؤں روشن کریں گی اور جب سیالکوٹ میں ڈوبوں گا تو جموں کے لوگ بھی میری طرف دیکھا کریں گے ان کو میری ٹھنڈک پہنچے گی۔
خدا کے ہونے کی یہ بھی سب سے بڑی وجہ ہے کہ اس کی بنائی گئی چیزوں کے فوائد اور نقصانات سب کو یکساں ملتے ہیں۔ اگر خدا نا ہوتا تو یہاں بھی طبقاتی تقسیم آ جاتی۔ کیا پتا کسی شام کو غروب ہوتے سورج کو پاکستانی غائب کر دیتے کہ تم ہندوستان سے نہیں نکل سکتے۔ لیکن خدا کا در انصاف پہ قائم ہے۔ یہ بغیر کسی تفریق کے سب کو آسانیاں بھی دیتا ہے اور مشکلیں بھی دیتا ہے۔
یہ دیہات بہت زیادہ زرخیز ہیں۔ اگر آپ کے پاس کبھی فارغ وقت ہو تو گرمیوں میں سیالکوٹ سے لے کر نارووال کے درمیان کسی بھی سرحدی گاؤں ضرور جائیں۔ اگر آپ نارووال جائیں گے تو آپ کو وہاں راوی کے دوسرے کنارے سر پر پگڑیاں باندھے سکھ بھائی دھان لگاتے نظر آئیں گے۔ وہیں پر جموں سے ہماری جموں کے بھائی نظر آئیں گے۔
بھلے وقتوں کی بات ہے کہ یہ بارڈر نہیں ہوتا تھا۔ تب زمین پر موجود خدا کے باشندے خدا نہیں بنے تھے تو تقسیم نہیں تھی۔ تب ہماری نانیاں یہاں سے پیدل چل کر جموں سے خریداری کرنے جایا کرتی تھی۔ سیالکوٹ تو تھا ہی جموں کا حصہ، سو وہاں خریداری کرنے جانا ایسے ہی تھا جیسے آپ ساتھ والے بڑے شہر کچھ لینے جا رہے ہوں۔
یہ حالات آزادی کے بعد بھی ایک لمبے عرصہ تک ایسے ہی تھے۔ مجھے یاد ہے امی اکثر اپنی اس خالہ کا قصہ سناتی تھیں جو کہ وہاں سے غلطی سے دوسرے حصے میں چلی گئی اور اسے ہندوستانی فوجیوں نے پکڑ لیا۔ خیر جب وہ واپس آئیں تو نئی کہانیاں ساتھ لے کر آئیں جو کہ ویسی ہی دلچسپ تھی جیسے وہ لوگ تھے۔
پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہاں بند بنایا گیا، جب بند بنا تو فوجیوں کو لگا کہ اب دونوں اطراف سے فائرنگ بھی کر لینی چاہیے سو جھڑپیں بھی ہونا شروع ہوگئی۔ جب میں وہاں بچپن میں جاتا تھا تو تب لائٹیں اور بارڑ لگانے کا منصوبہ جاری تھا۔
سوچیں سرحد کے اس پار جہاں ہم پاکستانیوں کے دیہاتوں میں بجلی اتنی عام نہیں تھی اُس پار وہ لوگ سرحد پر بھی بجلی والے بلب لگا رہے تھے۔ اب اگر آپ کبھی ان دیہاتوں میں جائیں تو ایک قطار نظر آئے گی جو کہ شام ہوتے ہی روشن ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ہمیں ہمارے نانا بتاتے تھے کہ ان کے گاؤں کے اکثر لوگ جن کے گھر سرحد کے ساتھ تھے رات کو اپنی روشنیاں نہیں جلاتے تھے کیونکہ سرحد پار سے آنے والی روشنی اتنی تیز ہوا کرتی تھی۔
خیر انسان بھی کمال ہیں سرحد کے اس پار بھی اور اُس پار بھی، یہ تصویر دیکھ کر بہت کچھ یاد آ رہا ہے جو کہ قلمبند کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا کرنا وقت کا ضیاع ہی ہوگا کیونکہ محبت سے گوندھی گئی باتیں دنیا کو وقت کا ضیاع لگتی ہیں ان کو سننے والے کم ہوتے ہیں۔ وہیں پہ اگر نفرت کی داستان سنانا شروع کریں تو مجمع لگ جاتا ہے اور یہ باتیں سب کے دل کو بھاتی ہیں۔