Mujh Se Mera Wajood Wapis Le Lo (2)
مجھ سے میرا وجود واپس لے لو! (2)
مؤخر الذکر دونوں میں انزائٹی دراصل ایک بیماری سمجھی جاتی ہے، لیکن ایگزسٹنشلزم میں یہ ایک ضروری لمحہ سمجھا جاتا ہے جس سے دنیا کا ہر شخص گزرتا ہے۔ اور اس سے فرار نا ممکن ہے۔ کرکگرڈ کے بقول "انزائٹی سے مثبت انداز میں گزرنے والا شخص سچائی تک پہنچ سکتا ہے" اور ایسا ہونا اٹل ہوتا ہے کہ، ہم کبھی نا کبھی اور کہیں نا کہیں اس بحران کا شکار ہوں۔ لیکن اس کا حل یہ ہے کہ آپ بجائے وجود پہ سوال اٹھانے کے، صرف اپنے روزمرہ کے امور پہ اپنا فوکس رکھیں اور ایسی سوچ سے دور رہنے کی کوشش کریں، تو آپ ایک بھرپور زندگی گزار سکتے ہیں۔
کیا انسان ایک دم سے خودکشی کا ارادہ بنا لیتا ہے؟
کوئی بھی خودکشی کرنے کا ارادہ ایک دم سے نہیں کرتا بلکہ اس ارادے کے پیچھے ایسے سینکڑوں دن ہیں، جن میں اس کا دل توڑا جاتا ہے، اس کے احساسات کو روندا جاتا ہے، اس کو ایموشنل ٹراما سے گزارا جاتا ہے۔ تب جا کے وہ خودکشی کرتا ہے۔ اور بالکل ایسے ہی ہوتا ہے۔ یہ بات بالکل سچ ہے۔ ایسے میں غلط وہ شخص نہیں ہوتا جو خودکشی کرتا ہے بلکہ غلط اس کے اپنے ہوتے ہیں، جو اس کو ایسا کرنے پہ مجبور کرتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی مجموعی طور پہ ایک ڈپریشن زدہ سوسائٹی ہے، جہاں ہر شخص کو دوسرے شخص سے گلِہ ہے۔ مگر کوئی بھی اپنا آپ نہیں دیکھتا کہ، وہ اپنی جگہ کتنا جابر بن کر بیٹھا ہے۔
یہاں کسی دوسرے شخص کی ایموشنل صحت کا خیال رکھنے کا کوئی بھی نہیں سوچتا، ہر کوئی ایک ایسی دوڑ میں لگا ہے جس سے بس وہ زیادہ سے زیادہ خوش ہو، مگر ایسا کرکے سب لوگ ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں آنے والی خوشیوں کی عالمی فہرست میں پاکستان نیچے دور کہیں چلا گیا کیونکہ ہمارا بہیوئر دن بدن بدتر ہوا جا رہا ہے، جس میں ہم دوسروں کے احساسات کی قدر کی بجائے اپنا دل سخت سے سخت کر رہے ہیں۔ اور اس سفر سے واپسی بہت مشکل ہے، کیونکہ غصہ ایک منفی ایموشن ہے اور ہمارے دماغ کی وائرنگ ایسی ہے کہ، ایک بار اگر اس ایموشن کو ہم خود پہ قابو پا لینے دیں تو باقاعدہ تھیراپی کے بغیر واپسی نا ممکن لگتی ہے۔
پولینڈ خوشیوں کی فہرست میں باسٹھویں نمبر پہ ہے، مگر یہاں کے لوگوں کا ایک کام بہت مزے کا ہے۔ جب بھی آپ یہاں کسی سے پوچھتے ہیں کہ تم کیسے ہو؟ تو ہماری طرح چاہے اندر سے ٹوٹا دل رکھ رہے ہوں اور اسکے باوجود الحمدللہ یا فائن کہنے کی بجائے، یہ لوگ ایک ایک ٹینشن بتانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور یہ انسانی نفسیات ہے کہ، اگر آپ کسی اپنے کو دل کی بات بتائیں گے تو آپ تب ہی اپنا غم ختم کر سکتے ہیں، اسی لئے سائیک تھیراپی میں، پہلا کام ہی مریض کی اپنی کیفیات جاننا ہوتا ہے۔ کیونکہ جب تک آپ اپنا غم نہیں بتا سکتے، تب تک آپ اپنا دل ڈپریشن اور منفی خیالات سے پاک نہیں کر سکتے۔
اسی لئے ایک مشورہ یہ ہے کہ جب بھی آپ دیکھیں کہ، آپ کو کسی پہ بے حد غصہ آ رہا ہے تو ایک گلاس پانی پئیں اور خاموش ہو جائیں۔ دو منٹ کی یہ خاموشی آپ کو وہ اطمینان دے گی، جو آپ غصہ کرکے کبھی نہیں پا سکتے اور یہ خاموشی اگلے شخص کو اس ٹراما سے بھی بچا دے گی، جو آپ غصے کا اظہار کرکے پہنچا سکتے ہیں۔
اسی لئے حدیث بھی ہے،"وإن أبعد الناس من ﷲ القلب القاسی"۔کہ اللہ سے سب سے زیادہ دور شخص، سخت دل شخص ہے۔ اور سخت دل شخص وہ ہے جو غصہ پہ قابو پانا نہیں جانتا۔
ہم سب کا یہ چھوٹا سا رویہ پورے ملک کو خوش و خرم بنا سکتا ہے۔ اپنے دل کا حال کبھی مت چھپائیں، وہیں اپنا غصہ ہر بار چھپائیں، دنیا کا کوئی ایشو ایسا نہیں جو بغیر غصے کے حل نا ہو اور ہر کسی کو اپنی زندگی جینا سکھائیں۔ اس میں مداخلت کم سے کم کریں، یہی خوشحال نفسیات کا تقاضہ ہے۔
سائنس کیا کہتی ہے؟
زندگی کا مقصد، ہمارے وجود کا مقصد یا پھر کائنات کا وجود، یہ سب سائنس سے اتنا ریلیٹڈ نہیں ہیں جتنا یہ سوال فلسفے سے ریلیٹڈ ہیں۔ سائنس صرف حقائق کی بنا پہ ہمیں اشیا کے وجود کے بارے میں بتاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج آپ سائنس کی ایک کتاب جلا دیں، اسکے نظریات غائب کردیں تو، سو سال بعد کوئی شخص اگر صفر سے ان پہ تحقیق شروع کرے گا تو وہ انہی نتائج پہ پہنچے گا، جن پہ سو سال پہلے کوئی شخص پہنچا تھا۔ جبکہ فلاسفی ایسی نہیں۔ یہاں آپ ایک نظریے کو آج دفن کرینگے، تو دس سال بعد وہ نظریہ مکمل طور پہ نا پید ہو جائے گا۔
ایسے میں زندگی اور اسکے وجود کے بارے میں سائنس ایک طرح سے خاموش ہے۔ اب یہ سائنس کے قاری کی ذاتی تشریح ہو سکتی ہے کہ، وہ اپنی نفسیات کی تشنگی کے لئے ان نظریات کو کیسے استعمال کرتا ہے؟ اور اسی استعمال کی وجہ سے سائنس دو طبقہ ہائے فکر میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ جس میں ایک طبقہ زندگی کے بامقصد ہونے کو بتاتا ہے تو وہیں دوسرا طبقہ یہ بتاتا ہے کہ، زندگی کا as such کوئی مقصد نہیں بلکہ یہ ہماری ذاتی پسند ہے کہ ہم اس کو کس سمت میں لیجاتے ہیں؟
انسانی نفسیات کا یہ ٹاپک بہت وسیع ہے، جس پر گھنٹوں بات کرنا بھی کم ہے۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ انسانی آبادی کا ننانوے فیصد حصہ، اس بحران سے کبھی نا کبھی گزرتا ہے چونکہ ہم اس سیارے کی وہ واحد مخلوق ہیں جو اتنی زیادہ "ذہین" ہے اور اتنی زیادہ "سوچ بچار" کی صلاحیت رکھتی ہے، تو اس لئے ہمارا ان حالات سے گزرنا ناگزیر ہوجاتا ہے، ورنہ اس سیارے پہ ارب ہا دوسری مخلوقات اپنے وجود پہ سوال اٹھائے بغیر کھا پی کر اس جہان سے کوچ کر جاتی ہیں۔
لیکن ہمارے لئے ذہانت ایک زحمت ثابت ہوئی اور وہ سیارہ جہاں پہ ہر مخلوق اپنے وجود پہ سوال اٹھانے کا سوچ تک نہیں سکتی، انسان نا صرف سوچتے ہیں بلکہ جواب نا ملنے پہ اپنے ہم جنسوں کو اور خود کو بھی نقصان پہنچا بیٹھتے ہیں۔ لیکن وہیں اگر کوئی انسان ایسے سوال ذہن میں آنے پہ کسی ایک تشریح کو اپنی زندگی کے مطلب کےمطابق ڈھال لے، تو وہ معاشرے کا کارآمد پرزہ بن سکتا ہے وہیں اگر ایسا نا ہو تو وہ خود سمیت دوسروں کو بھی نقصان پہنچا بیٹھتا ہے۔ یہ سلسلہ ذہانت کے ارتقاء کیساتھ ہی شروع ہوا تھا، اور اب اے آئی کے آنے کے بعد نئی منازل کی طرف چلا جائے گا۔