Insani Nafsiyat Aur Dimagh (2)
انسانی نفسیات اور دماغ (2)
بچہ ڈرم کی آواز سُن کر سہم جاتا اور رونا شروع کر دیتا۔ ایسا واٹسن نے اگلے سات ہفتوں تک سات بار کیا اور بچہ ہر بار ڈرم بجنے پہ رونا شروع کر دیتا۔ اب تجربے کا دوسرا حصہ شروع ہوا۔ بچہ ان سات ہفتوں میں سفید رنگ سے اتنا زیادہ ڈر چکا تھا کہ آٹھویں ہفتے بچے کے سامنے سفید چوہا لایا گیا اور بچہ ڈرم کی آواز سنے بغیر رونا شروع ہوگیا۔
یہاں سے واٹسن نے نیا کانسپٹ لیا جسے ہم جنرلائزیشن کا نام دیتے ہیں۔ اب البرٹ سفید رنگ کو دیکھ کر ڈرنا اتنا عام /جنرل سمجھ چکا تھا کہ جب بھی اس کے سامنے سفید رنگت کی کوئی چیز آتی وہ رونا شروع کر دیتا۔ چاہے وہ روئی ہے، سفید کُتا ہے، یا سانتا کلاز جیسا بے ضرر انسان۔ اس کہانی کا انجام کافی بھیانک ہوا اور البرٹ چھ سال کی عمر میں دماغ میں پانی پڑنے کی وجہ سے فوت ہو گیا۔
یہ منفرد لیکن غیر انسانی اور غیر اخلاقی تجربہ اس بات کو بتاتا ہے کہ ہمارے بچوں کے زیادہ تر خوف ابتدائی عمر میں ہی طے ہو جاتے ہیں۔ یہ خوف پھر ساری عمر چلتے ہیں۔ پچھلی قسط میں اس بات کو بتایا گیا تھا کہ ہمارے دماغ میں زیادہ تر کونیکشن بچے کی عمر کے ابتدائی چھ ماہ میں بن جاتے ہیں اور یہی ساری عمر چلتے ہیں۔
انسانی دماغ کی یہ خوبی اس کو ممتاز کرتی ہے کہ یہ سیٹ پیٹرن کے تحت چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ دماغ کے اتنے پیچیدگی سے ارتقاء کرنے کے پیچھے پورا ایک میکانزم چھپا پڑا ہے جس کے تحت دماغ آج کی حالت تک پہنچا۔
ہمارا دماغ کیسے ارتقاء پذیر ہوا؟
انسان فطرت کے فراہم کردہ ڈاٹا کے بغیر کبھی بھی نہیں سوچ سکتے۔ اسی طرح آرٹیفیشل انٹیلیجنس کبھی بھی انسانوں کے فراہم کردہ ڈاٹا کے بغیر نہیں سوچ سکتی اور یہ وہ واحد پلس پوائنٹ ہے جو کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو انسانوں کے لئے "خطرناک" ہونے سے روک سکتی ہے۔ یاد رہے کسی بھی بات کو سوچنے کے لئے اردگرد ماحول ہونا ضروری ہے۔
اگر ہم کسی بچے کو خلاء میں فقط آکسیجن فراہم کرکے زندہ رکھیں اور اس کے گرد سوائے لامتناہی اندھیروں کے کچھ بھی نا ہو تو وہ کبھی بھی سوچنے کی صلاحیت ڈویلپ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اس کے پاس سوچنے کے لئے کوئی ریفرنس موجود نہیں ہے۔ اسی طرح آج سے 6 ملین سال پہلے جب پرائمیٹس نے اپنی لمٹ کراس کرکے سوچنا شروع کیا تھا تو تب ہم میں بہت سی ایسی تبدیلیاں آئی جو کہ ہمارے لئے نقصان دہ ہیں مگر سمارٹ ہونے کی بنا پہ ہم نے ان تبدیلیوں کو ہینڈل کر لیا۔
جیسے ہمارے بچوں کے سر بڑے ہونا شروع ہوئے۔ یہ یکدم سے نہیں ہوا تھا بلکہ اس کو لاکھوں سال لگے۔ ہم نے بڑے سر اور دو ٹانگوں پہ چلنا اکھٹا شروع کیا تھا اور یہ خطرے کی ایک نشانی تھی۔ کیونکہ دو ٹانگوں پہ چلنے کی وجہ سے ہمارے Pelvis تنگ ہونا شروع ہو گئے تھے اور یہ تنگ ہوتے Pelvis بچوں کے بڑھتے سر کے سائز کے لئے ایک مسلئہ تھے۔
دو ٹانگوں پہ چلنے کا ہمیں سب سے بڑا فائدہ یہ ہونا شروع ہوا تھا کہ ہم انسانوں نے ہاتھوں کے ساتھ آلہ جات یا پھر ٹولز بنانا شروع کر دئیے تھے۔ مگر ساتھ ہی بڑھتے سر کا مسلئہ مشکلات پیدا کر سکتا تھا اور ان دو مظاہر کا ایک ساتھ چلنا نا ممکن تھا۔ اس مقصد کے لئے انسانوں میں ایک بہت اہم ایڈاپٹیشن آنا شروع ہوئی۔ یہ ایڈاپٹیشن ہمارے بچوں کے سر کے درجہ بدرجہ نرم ہونے کی صورت میں سامنے آئی۔
اس حد درجہ تیز رفتار سے (جو کہ پانچ سے چھ ملین سال پہ محیط ہے) سمارٹ ہوتے ہوئے انسانوں کے لئے فطرت نے ان کے بچوں کے سر کو نرم کرنا مناسب سمجھا اور یہی وہ وجہ ہے کہ آج انسانوں کے بچوں کے سر بہت نرم اور لچکدار ہوتے ہیں اور تمام جانوروں میں سے سب سے زیادہ نگہداشت انسانوں کے بچے ہی مانگتے ہیں۔ اس نرم سر کی وجہ سے فائدہ در فائدہ یہ ہوا کہ ہم انسانوں نے بچپن کے ابتدائی لمحات کو ماحول سیکھنے میں لگانا شروع کیا اور یہیں سے ہمارے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔
یہ سفر دوملین سال پہلے شروع ہوا جب ہماری کھوپڑیوں کے بڑھتے سائز کی وجہ سے 1، 8 ملین سال پہلے (ان تمام تاریخوں کے فاسل ریکارڈ دستیاب ہیں) ہومو ارکٹس کے دماغ 1000cc کی کپسٹی کے ہوگئے تھے اس سے پہلے 2 ملین سال پہلے یہی کپسٹی ہومو ہبیلس میں 800cc تھی اور آج سے تین ملین سال پہلے ہومو australopithecines میں یہی کپسٹی 400 سی سی تھی۔
وہ سفر جو آج سے چھ ملین سال پہلے کھوپڑی کے بڑا ہونے کی صورت میں شروع ہوا تھا اس کے نتیجے میں فقط تین ملین سالوں میں ہمارے دماغ کی کپسٹی 400 سی سی سے 1400 سی سی (موجودہ انسان، ہومو سپی این میں) ہو گئی اور یہ تبدیلی حیران کن تھی۔
اس میں کیا کیا تبدیلیاں آئی؟
اس میں ہماری کھوپڑی نرم ہونا شروع ہوئی تو وہیں ہماری کھوپڑی کا نچلا حصہ تنگ ہونا شروع ہوگیا۔ یہی وہ وجہ ہے کہ اس وقت جانوروں کی لاکھوں سپی شیز میں اس وقت ہم انسان وہ واحد مخلوق ہیں جو بیک وقت نگل اور سانس نہیں لے سکتے اور یہ بہت برا ارتقا ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے غوطہ لگنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح عقل داڑھ جو کہ نینڈرتھلز میں نہیں تھی وہ آگئی اور انفیکشن کے خطرات بھی بڑھ گئے۔
مگر وہیں اس کا بہت بڑا فائدہ ووکل کارڈز کے مزید ارتقاء کی صورت میں ہوا۔ جو کہ ہومو ارکٹس سے پہلے (1، 8 ملین سال پیچھے) کسی بھی انسان میں نہیں تھا۔ اس زبان کو جو کہ آج سے ہم 1، 5 ملین سال پہلے بولنا شروع ہوئے اس کو ہم پروٹو لینگوئج کہتے ہیں۔ پروٹو لینگوئج کیا ہے؟ یہ یوں سمجھ لیں جیسے آپ ایک رنگین ہائی گرافک گیم دیکھتے ہیں تو وہیں 1960 میں یہ گیم چند ہندسوں کی سی شکل رکھتی تھی۔
اس سے پہلے یہی کمپیوٹر 0، 1 کی زبان میں چلتے تھے اسی طرح ہم انسان تھے۔ سادہ الفاظ میں زبان کا ارتقاء اتنا سادہ نا تھا اور اسی طرح ہماری ذہانت کا ارتقاء اتنا سادہ نا تھا اس کے بدلے میں ہمارے وجود میں کئی تبدیلیاں آئیں اور یہ تبدیلیاں ہمیں بہت سے خطرات میں دھکیل گئی لیکن اسی کےساتھ ہمیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ملی جس سے آج ہم مشین کو سوچنا سمجھنا سکھا رہے ہیں۔