Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaigham Qadeer/
  4. Insani Nafsiyat Aur Dimagh (1)

Insani Nafsiyat Aur Dimagh (1)

انسانی نفسیات اور دماغ (1)

چیزیں سیکھ کر بھول سکتے ہیں۔ ہم علم حاصل کرکے بھلا سکتے ہیں لیکن ہم کبھی بھی کسی چیز کا تصوراتی خاکہ بنا کر اسے بھول نہیں سکتے۔

اگر میں چاند کا نام لوں گا تو آپ میں سے بہت سے لوگوں کے ذہن میں سفید روشنی آ جائے گی۔ اسی طرح اگر میں ہاتھی کا نام لوں گا تو آپ کے ذہن میں سونڈ والا جانور آجا ئے گا۔ آپ کے ذہن میں کبھی بھی چاند کا نام لینے پہ پیلی روشنی والا سیارہ ذہن میں نہیں آئے گا۔ ہاں کچھ لوگوں کو اپنی محبوبہ یاد آجائے تو الگ بات ہے، لیکن وہ بھی ثانوی سوچ میں آئے گی۔

یہ سب کیوں ہے؟

کیونکہ ہمارا دماغ چیزوں کو نام دےکر یاد رکھتا ہے۔ آپ ایک بار چاند کو نام دے لیں۔ پھر چاہے آپ یہ بھول جائیں کہ چاند پہ آکسیجن نہیں، فضا نہیں لیکن آپ کبھی بھی یہ نہیں بھولیں گے کہ چاند سفید ہالا ہے نور کا۔ اسے آپ علم الاسماء کہیں یا کچھ اور لیکن یہ چیز ہمیں ممتاز کرتی ہے۔

جدید آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی سب سے بڑی پرابلم یہ اوبجیکٹو ریکوگنشین یا اشیا کہ شناخت ہے۔ مثال کے طور پہ آپ ایک بچے کو بتاتے ہیں کہ دھند ایسی چیز کو کہتے ہیں جس میں کچھ نظر نہیں آتا، بس ہر طرف سفید مائل گیس ہی گیس ہوتی ہے تو وہ زندگی میں کبھی بھی دھند کا سامنا ہونے پہ اسے پہنچان لے گا۔ مگر آرٹیفیشل ذہانت ایسا نہیں کر سکتی۔

اس کے لئے آپ کو پہلے کمپیوٹر میں ایسی تصاویر فیڈ کرنا ہوں گی جو دھند کی ہوں۔ پھر جا کر وہ دھند کو پہچان پائے گی۔ بگ ڈاٹا اور اے آئی میں یہ دو مسائل بہت بڑے تصور کئے جاتے ہیں۔ ایک کمپیوٹر نارمل حالت میں بھی لاکھوں پراسس کر رہا ہوتا ہے لیکن ہمارا دماغ پچاس پراسس کرتا ہے لیکن ہنوز یہ پچاس پراسس ہمیں ہر چیز سے ممتاز کرتے ہیں اور ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ ہم ایسی مشین بنا سکیں جو ہم سے زیادہ پراسس ایک وقت میں کر سکتی ہے۔

ہمارا دماغ سو ارب عصبی خلئیے رکھتا ہے۔ یہ خلئیے ہماری انفارمیشن کو پراسس کرنے سے لے کر ہماری یادیں بنانے اور ہمیں ہر طرح کے احساسات دینے کا کام کرتے ہیں۔

ہمارا دماغ کیسے کام کرتا ہے؟

دماغ، یہ قدرت کا سب سے بڑا عجوبہ ہے جو کہ کائنات کی سب سے تیز اور شاطر مخلوق کو دنیا میں کامیاب بناتا ہے۔ مگر یہ دماغ کیسے کام کرتا ہے؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ ہمارا دماغ دھاگہ نما خلئیوں Cells پہ مشتمل ہوتا ہے۔ ان کو ہم نیورل سیل Neural Cells کہتے ہیں۔ جس طرح بجلی کی وائرنگ میں مختلف تاریں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں اسی طرح یہ دھاگہ نما خلئیے بھی آپس میں ایک کیمیائی ربط کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔

اس کیمیائی ربط کو ہم سائنیپس Synapes کہتے ہیں اور ان دھاگوں کی اینڈنگز ہمارے مسلز کی بیرونی سطح پہ ہوتی ہیں اور یہ یہاں سے ہر طرح کی معلومات لیتی ہیں۔ ہمارا دماغ سو ارب عصبی خلئیے رکھتا ہے۔ یہ خلئیے ہماری انفارمیشن کو پراسس کرنے سے لے کر ہماری یادیں بنانے اور ہمیں ہر طرح کے احساسات دینے کا کام کرتے ہیں۔ ان سو ارب دھاگوں کو دس ہزار سائنیپس Synapes ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتے ہیں۔

یہ سب کچھ ایک پارٹی کیک جتنے دماغ میں موجود ہوتا ہے اور اس دماغ کو چلانے کے لئے بس بیس واٹ کا کرنٹ چاہیے۔ سائنیپس یا دماغی دھاگوں کا باہمی ربط Connection پیدائش کے فوراََ بعد بننا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ ربط اتنا زیادہ بنتا ہے کہ ابتدائی چھ ماہ میں بننے والے دماغی کنیکشن ہی عمر کا سارا حصہ چلتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق کے لئے سفید موتیے Cataract کے مریض بچے ہیں۔

اِن بچوں کے موتیے کو پیدائش کے چھ ماہ بعد ٹھیک کر دیا گیا۔ مگر وہ بچے پھر بھی ٹھیک طرح سے دیکھ نا پائے۔ جب وجہ تلاش کرنے کی خاطر بندروں کے دماغ کا مطالعہ کیا گیا اور ان پریہی تجربہ کیا گیا تو پتا چلا کہ ان میں وہ دماغی کنیکشن ہی نہیں بنے تھے جو بصری معلومات کو آگے لے جا سکیں۔ سو وہ اب ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ دماغی مطالعے کے لئے fMRI ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہیں۔

اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم دماغ کے ان حصوں کو دیکھ پاتے ہیں جو کام کر رہے ہوتے ہیں، اس بات کا پتا اس جگہ کے آکسیجن لیول سے چلتا ہے۔ جو حصے کام کر رہے ہوں وہ زیادہ آکسیجن لیتے ہیں۔ محقیقین نے ان لوگوں کو دو ٹاسک دئیے اور اس کے بعد ان کے دماغ کو اسکین کیا گیا۔ ان کو ٹاسک دئیے گئے، جیسا کہ پچاس تصویروں میں سے کرسی یا کسی جانور کو دیکھنا ہے یا دوسرا گروپ دو رنگوں میں سے ایک خاص رنگ آنے پہ انگلی ہلا کر جواب دے رہا تھا۔

اس کے بعد پتا چلا کہ ان لوگوں کے دماغ ایک وقت میں پچاس مختلف ٹاسک کرتے ہیں۔ لیکن ایک وقت میں دماغ کے مختلف حصے یہ کام انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ اس بات سے یہ والا نظریہ غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ کچھ لوگ دماغ کا پانچ فیصد استعمال کرتے ہیں جبکہ ذہین لوگ دماغ کا بیس فیصد استعمال کرتے ہیں۔ درحقیقت اگر آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو بھی آپ کے دماغ کے سارے حصے مختلف امور انجام دے رہے ہیں۔

ہمارا دماغ ترجیحات کے تحت کام کرتا ہے۔ مختلف چیزوں کو ہمارا دماغ مختلف ترجیحات دے کر ان کوپرکھتا ہے اور پھر ان پر فوکس کرتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ پراسس ہے۔ ہمارا دماغ یہ سب کیسے کرتا ہے اگلی قسط میں پڑھ لیجئے گا لیکن اس سے پہلے آپ کو ایک بہت دلچسپ تجربہ پڑھنا ہوگا۔

لٹل البرٹ اور انسانی نفسیات۔

"مجھے ایک درجن بچے لا کر دو، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ان کو ایسا ٹرین کروں گا کہ وہ میری پسند اور مرضی کا کردار بنیں گے۔ ڈاکٹر، مارچنٹ چیف، بھکاری یا چور"۔

یہ الفاظ طرز عمل کی نفسیات behaviorism کے خالق جان واٹسن کے ہیں اور اس نے ایسا تجربہ کیا بھی!البرٹ الاس نامی بچے کی عمر نو ماہ تھی جب واٹسن نے اس پر تجربات کرنے شروع کئے تھے۔ اس نے بچے کو مختلف اشیا دکھائیں جیسا کہ سفید چوہے، بندر اور خرگوش۔ تجربہ بہت عجیب تھا۔ جب بھی واٹسن بچے کے نزدیک سفید چوہے کو لاتا تو ایک ہتھوڑے سے ڈرم بجانا شروع کردیتا۔

Check Also

Balcony

By Khansa Saeed