Hum Dor Haar Chuke Hain
ہم دوڑ ہار چکے ہیں

پاکستان بھارت سے صنعتی ترقی کی دوڑ تو ہار چکا ہے لیکن اے آئی کے انقلاب میں بھی ہارنے جا رہا ہے۔ اس وقت اے آئی کی دنیا میں ڈیٹا سنٹر بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ ڈیٹا سنٹر دراصل اے آئی کی ٹریننگ اور ہوسٹنگ سمیت دیگر مقاصد کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں ڈیٹا سنٹرز کی تعمیر ایک منافع بخش صنعت کے طور پر ابھر رہی ہے۔ حتی کہ عرب ممالک نے ٹرمپ کیساتھ حالیہ ملاقات میں سب سے زیادہ فوکس ڈیٹا سنٹرز کی تعمیر پر دیا تھا۔
تو جناب اس وقت پاکستان میں گن کر پورے بائیس ڈیٹا سنٹر ہیں۔ جو کہ کسی بھی قسم کی اے آئی کی ٹریننگ کے لئے استعمال نہیں ہو رہے یا بہت کم استعمال ہو سکتے ہیں۔ جبکہ بھارت میں ابھی تک 140 ڈیٹا سنٹر بن چکے ہیں۔ یہ ڈیٹا سنٹر 960MW پاور استعمال کر رہے ہیں جبکہ اگلے سال ان کی حکومت اس کو بڑھا کر 1800MW کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے اور کر رہی ہے۔
ڈیٹا سنٹر کی تعمیر کسی بھی ملک کی ٹیکنالوجی سمیت معیشت میں خود مختاری کی نئی ضامن ہے اور پاکستان حسب معمول اس انقلاب کے وقت بھی ایک سیاسی جماعت کو کنٹرول کرنے میں اپنی انرجی ضائع کر رہا ہے۔ وہ بجلی جو تین سال پہلے ایسے ڈیٹا سنٹرز کی تعمیر برداشت کر سکتی تھی وہ اب اتنی مہنگی ہے کہ ایسی تعمیر خواب ہی لگتی ہے۔
یہ تحریر نہیں لکھنی تھی لیکن ابھی کسی نے شئیر کیا تھا کہ ہم کراچی میں سڑک بنانے پر فلاں جماعت کے میر کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ جبکہ ان ڈھکنوں کو علم ہی نہیں کہ دنیا اب سڑکوں کی تعمیر سے کہیں آگے ڈیٹا سنٹر بنانے اور ان کی مدد سے دنیا بھر میں اے آئی کو کنٹرول کرنے پہ لگی ہوئی ہے۔ جبکہ یہ ڈھکن ابھی تک بریانی کی پلیٹ اور سڑک کی تعمیر میں پھنسے ہوئے ہیں۔
دس کروڑ سے اوپر نوجوان ورکر ہونے کے باوجود پاکستان کا یوں غریب رہنا اور ترقی نا کرنا بہت مایوسی کی بات ہے اور یہ اُن ریٹائر بڈھوں کے منہ پر تمانچہ ہے جو ریٹائر ہو کر بھی پیسے کی بھوک میں دس کروڑ نوجوانوں کا مستقبل تاریک کر رہے ہیں۔
ابھی کے حالات میں اس وقت یہ حقیقت ہے کہ ہمارا ملک اے آئی کے انقلاب میں سے بھی منافع حاصل کرنے میں ناکام رہے گا اور اگلے سو سال بھی یہ سڑک کی تعمیر اور بریانی کی پلیٹ میں ہی پھنسے رہیں گے۔

