Hamara Asal Masla
ہمارا اصل مسئلہ

مجھے اچھے سے یاد ہے بچپن میں مئی کے یہ دن سکول جانے کے لئے عذاب ہوتے تھے۔ ہم ہر روز چھٹیاں ہونے کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے اور بے صبری سے اس بات کا انتظار کرتے تھے کہ کب چھٹیاں ہونگی اور سکول سے جان چھوٹے گی؟
یہ کتنی پرانی بات ہوگی؟ یہ آج سے پندرہ سال سے بیس سال پرانی بات ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پہ گرمی کی شدت کا تذکرہ دیکھ کر یاد آتا ہے کہ کیسے تب اتنی گرمی ہوتی تھی کہ دھوپ میں کھڑا ہونے پر جسم جل جاتا تھا۔
لیکن آموں کے پیڑ کے نیچے یا شہتوت کے نیچے یا پھر دریک کے پیڑ کے نیچے چارپائی بچھا کر لیٹنے کا بہت مزہ آتا تھا اور گرمیوں میں سارا سارا دن بجلی نہیں ہوتی تھی تو فریج کا پانی اکثر گرم ملتا تھا۔
تب ہماری مائیں اس کا یہ حل نکالتی تھی کہ وہ یا تو نیلے کولر میں برف ڈال کر رکھ دیتی تھی یا پھر گھڑے میں پانی رکھتی تھی اور ہم نے دونوں چیزیں دیکھی ہیں اور گھڑے کا پانی بہت لذیز اور ٹھنڈا لگتا تھا۔
اس کے علاوہ گرمیوں کی چھٹیوں میں تب سب پنجابی اپنی کھیتی باڑی سے فری ہو چکے ہوتے تھے اور دھان لگانے کا وقت قریب آ رہا ہوتا تھا۔ اس مقصد کے لئے ہر کھیت میں ٹیوب ویل چل رہے ہوتے تھے اور ان میں نہانے کا مزہ آتا تھا۔ یہ پانی کسی ائیرکنڈیشنر سے کم نہیں لگتا تھا۔
یوں نہانے کے بعد پھر پیڑ کی چھاؤں میں سونے کا بہت مزہ آتا تھا۔ یہ چھاؤں اتنی گھنی ہوتی تھی کہ اگر سورج اپنی سمت نہیں بدل رہا تو اس چھاؤں سے اٹھنے کا دل نہیں کرتا تھا۔ اکثر لوگ یہاں تک پڑھنے کے بعد دل میں سوچ رہے ہونگے کہ بھائی تب تو گرمیاں بھی کم سخت ہوتی ہونگی ناں؟
تو جناب! آج سے پندرہ سال پہلے کیا آج سے پچاس سال پہلے تک کا ایوریج درجہ حرارت مئی میں بیالیس ڈگری ہے اور آج کل بھی پورے مئی کے مہینے کا ہمارے شہر کا درجہ حرارت بیالیس ڈگری ہی ہے۔ اگر تھوڑا بڑھا ہوگا تو مشکل سے ایک ڈگری بڑھا ہوگا۔
پھر گرمی کیوں لگ رہی ہے؟
اول، تب لینٹر والی چھتیں نہیں تھی۔ ٹائیلوں والے گھر تھے ان کے اوپر مٹی کی تہہ ہوتی تھی جو کہ دھوپ کی شدت برداشت کرکے گرمی کو کمرے تک نہیں لے کر جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پرانے گھر آج بھی ٹھنڈے محسوس ہوتے ہیں۔
جبکہ کنکریٹ نا صرف حرارت جذب کرتی ہے بلکہ اس کو باہر بھی نکالتی ہے جہاں پہلے ایک گھر کنکریٹ کا نکلتا تھا آج ہر گھر لینٹر والا اور کنکریٹ کے جال سے بنا ہے۔ یہ سب اپنے اندر حرارت جذب کر رہے ہیں۔
اب ہوتا یہ تھا کہ پہلے ہر پنجابی گھر کے صحن میں کم سے کم بھی پانچ یا دس درخت ہوتے تھے۔ آموں کا، شہتوت کا، لیموں کا یا پھر دریک یا نیم کا درخت، یہ درخت حرارت جذب کرتے تھے اور چونکہ دیواریں کچی ہوتی تھی تو وہ کم حرارت نکالتی تھی اور وہ درخت جذب کر لیتے تھے۔
لیکن، اب نا درخت ہیں نا ویسے گھر جو کہ مل کر آج سے پندرہ سال پرانے والے درجہ حرارت کو بھی بڑھا کر ایسے بنا رہے ہیں جیسے یہ درجہ حرارت بڑھ چکا ہو۔ لیکن یہ درجہ حرارت نہیں بڑھا بلکہ وہ حرارت جو پہلے منعکس ہو جاتی تھی اب گھروں میں جذب ہو کر محسوس ہو رہی ہے۔
اس کے علاوہ میں ٹھیٹ پنجابی ہوں اور باقی پنجابی بھی متفق ہونگے کہ ہم نے جب نیا نیا اے سی دیکھا تھا تو ہمیں تیس پر سیٹ اے سی میں بھی سردی لگتی تھی۔ لیکن اب اے سی کی عادت نے زیادہ تر لوگوں کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ وہ اپنے آبائی علاقوں کی گرمی کو بھی اپنا نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔ اوپر سے بڑھتی آبادی اس پر تیل چھڑک رہی ہے۔
لہذا حالیہ گرمی کی لہریں وہی ہیں جو پہلے تھی لیکن ہماری مس مینجمنٹ ان کو برا بنا رہی ہے۔ آپ آج ہی کسی کھیت میں جائیں جہاں درخت ہوں، کھلی ہوا ہو اور قریب میں کوئی بھی کنکریٹ کی عمارت نا ہو، آپ کو یہی گرمی ٹھنڈی لگنا شروع ہو جائے گی۔
ہمارا مسئلہ گلوبل وارمنگ سے بڑھ کر بے ہنگم شہر، آبادی اور عمارتیں ہیں۔ ہمارے شہروں اور گھروں کا گرین انڈیکس کم ہو چکا ہے اور اسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ فی مربع کلومیٹر آبادی کم کرنے کی ضرورت ہے اور اگلے چند سالوں تک دو بچوں کی پابندی عائد کرنا ضروری ہے۔ ورنہ ہر آتے سال گرمی یونہی زیادہ لگے گی اور حل بھی نظر نہیں آئیں گے۔
لیکن ہمارے ایکسپرٹ ہمارے ساتھ جھوٹ بول کر اصل مسائل بتانے سے گریز کر رہے ہیں۔ وہ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ ہمارے شہروں کی ناکام پلاننگ اس وقت شہروں کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑ رہی ہے۔
ہمارے جنگلات پہ ہاؤسنگ سکیموں نے قبضہ کر لیا ہے۔ ہمارے سب سے بڑے آموں کے باغ پر ڈیفنس گالف کورس بن گیا ہے اور اب اگلے دو سے تین سالوں میں ملتان کے ان علاقوں کا درجہ حرارت خود بخود اوپر چلا جائے گا اور ایکسپرٹ پھر سے جھوٹ بول کر کہہ دیں گے کہ یہ گلوبل وارمنگ ہے جبکہ وہ گلوبل وارمنگ کی تشریح نہیں کریں گے کہ یہ کیسے وجود میں آ رہی ہے اور کیسے سرکاری سطح پر پچھلے تیس سالوں میں اس کو سپورٹ کیا جا رہا ہے۔
ضرورت نئے شہروں، نئے درختوں اور نئی کم آبادی کی ہے ورنہ گرمی اتنی ہی ہے جتنی ہوا کرتی تھی۔

