Fahashi Cancer Ki Pehli Stage
فحاشی کینسر کی پہلی سٹیج
یہ سات سال پہلے کی بات ہے تب میں راولپنڈی میں نیا نیا آیا تھا۔ میری روٹین تھی کہ ڈنر میں جس دن دال یا سبزی ہوتی تھی تو میں باہر سے چکن وغیرہ کھانا پسند کرتا تھا۔ میرا دوست بھی میری اس عادت کی وجہ سے خراب ہوگیا۔ شروع شروع میں تو وہ اندر میس ہی میں کھانا کھا لیتا تھا لیکن پھر وہ میرے ساتھ آنا شروع ہوگیا۔
اُن دنوں میں نے ایک بات نوٹس کی تھی کہ سرشام ہی سڑک کے اردگرد برقعہ پوش خواتین نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ میں بہت پریشان ہوتا تھا۔ دوست سے ایک دن پوچھ لیا کہ یہ عورتیں لفٹ لینے کے لئے کیوں کھڑی ہو جاتی ہیں؟
اس نے حیرت سے مجھے پوچھا "تمہیں نہیں معلوم یہ کیوں کھڑی ہوتی ہیں؟"
"نہیں! " میں نے جواب دیا۔ اس پر وہ بولا کہ "یہ عورتیں جسم فروشی کے لئے یہاں کھڑی ہوتی ہیں اور ان کے پاس جو رکشے یا کار میں آتا ہے وہ کوئی عام شخص نہیں بلکہ ان کا گاہک ہوتا ہے"۔
میں رہا برگر بچہ، سو یہ سب سن کر حیران ہوگیا۔ پھر یاد آیا ایسا منظر لاہور میں بھی کہیں کہیں تھا۔ لیکن راولپنڈی میں پورے مری روڈ پر آپ کو شام چھ کے بعد جسم فروشی والی خواتین نظر آنا شروع ہو جائیں گی اور یہ کام پتا نہیں کب سے چل رہا ہے۔
ایسے ہی چھوٹے شہروں میں بھی ہوتا ہے اور عجیب و غریب بات یہ جاننے کو ملی تھی کہ یہ بات فقط خواتین کی جسم فروشی پر نہیں رکی ہوئی بلکہ نوجوان اور تھوڑے اچھے نقوش والے لڑکوں کی جسم فروشی تک پھیلی ہوئی ہے اور پاکستان کے ہر شہر میں ایسا ہو رہا ہے ہر شخص کو اس بات کا علم ہے۔
خیر یہ باتیں میں بھول چکا تھا۔ کیونکہ میرے لئے اتنی اہمیت کے قابل نہیں تھی نا میں ٹھہرا کوئی صحافی نا کچھ اور، ایک سائنس پر لکھنے والا لڑکا ان باتوں کے بارے میں بول کر کیا کر سکتا ہے؟ کچھ نہیں۔
پھر کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر دوبارہ سے پاکستان کے ٹرینڈز دیکھے۔ اس بار ایکس پر یہ دیکھا کہ ایک ملین سے اوپر پاکستان میں اس موضوع پر ٹوئیٹس ہوچکی ہیں کہ کسی ٹک ٹاکر کی نازیبا ویڈیوز لیک ہوئی ہیں اور وہ ویڈیوز یا تو کوئی ٹوئیٹ کرکے مانگ رہا ہے یا کوئی بانٹ رہا ہے لیکن سب اتنے کانفیڈنس سے کر رہے ہیں جیسے یہ نازیبا ویڈیوز نہیں بلکہ کوئی عام مزاحیہ چیز ہو جس کا انسانی نفسیات سے کوئی لینا دینا نا ہو۔
فحاشی کسی بھی سماج کے لئے زہر قاتل ہے لیکن اس سے بھی برا زہر اس فحاشی کا سرعام تذکرہ ہونا شروع ہو جانا ہے۔ یوں سمجھ لیں جیسے فحاشی کینسر کی پہلی سٹیج ہے تو وہیں پر فحاشی کا ہر زبان پر نارمل لائف ٹاپک بن جانا اس سماج میں پھیلے کینسر کی آخری سٹیج کی نشانی ہے۔
پاکستان اس وقت مختلف نفسیاتی عوارض کا ہاٹ سپاٹ ہے۔ یہاں مستقل رہنے والے لوگوں میں سے ایک چھوٹی تعداد ایسی ہے جو کسی نفسیاتی مرض کا شکار نہیں ہے لیکن بڑی تعداد ایسی ہے جو نفسیاتی عوارض کا نا صرف شکار ہے بلکہ اگر کوئی اس کی نشاندہی کرے تو وہ ان کو نفسیاتی مریض کہہ دیتی ہے۔
میں اس وقت دنیا کے پانچ چھ ملک دیکھ چکا ہوں۔ کئی ممالک کے لوگوں سے زندگی میں مل چکا ہوں اور آن لائن یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن جو چیز میں نے دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں بھی فحاشی اتنی عام اور آسان چیز نہیں ہے جتنی یہ انڈیا اور پاکستان میں ہے۔ بظاہر لباس کی بات کریں تو باقی ممالک کے لباس چھوٹے ہیں لیکن پاکستان اور انڈیا کے لوگوں کے لباس بڑے رہ گئے ہیں لیکن کردار چھوٹے ہو چکے ہیں۔ اس سماج میں فحاشی مغرب سے ہزار گنا زیادہ ہے۔
میں روز نیوز فالو کرتا ہوں۔ دنیا کے کسی ملک سے یہ خبر روزانہ نہیں ملتی ہے کہ کم عمر بچوں سے زیادتی ہوگئی ہے وہ بھی ان سے جو زیادتی سے روکنے کی تلقین دیتے ہیں جو استاد ہیں اور وہ بھی ایک مقدس کتاب کے، وہیں پر پاکستان کا کوئی محلہ ایسا نہیں ہے جہاں آپ گارنٹی دے سکیں کہ اس محلے میں ایک آدھ ایسا لڑکا نہیں ہے جو کم عمر لڑکوں کو ورغلانے کی کوشش نہیں کرتا۔ مغرب کو پاکستان میں فحاشی کا ذریعہ مانا جاتا ہے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ یہاں بچے اپنے ملک کے بڑوں سے کبھی نہیں گھبراتے۔ وہ اعتماد سے گلیوں میں گھومتے ہیں۔ آپکے ہاں تو بچے اپنے محلے کے ہمسائیوں کے ہاتھ سے محفوظ نہیں ہیں۔ فحاشی اتنی عام ہے کہ اب کسی کی نازیبا ویڈیو مانگنا ایک کلچر بن چکا ہے جبکہ حالیہ دنوں میں امریکہ میں ڈڈی کا سکینڈل آیا اس کی سب نے ایکس پر مذمت کی لیکن کسی نے سوشل میڈیا پر یہ ٹرینڈ نہیں چلایا کہ ہمیں لنک دو کیونکہ یہ لوگ اسے فحاشی سمجھتے ہیں اور اس کی تشہیر کی ہر طریقے سے حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔
جس نے ان ممالک میں فحش مواد دیکھنا ہے ان کے لئے ویب سائیٹس ہیں الگ جگہیں ہیں لیکن کہیں ایسے ملک کا ایک ایک بچہ ایک فحش ویڈیو مانگتا اور بانٹتا نظر نہیں آتا ہے۔ یہ ایک بہت الارمنگ صورتحال ہے۔ ایسا معاشرہ لمبے عرصہ تک قائم نہیں رہ سکتا ہے جہاں ساتھ والے گھر سے بھی انسان محفوظ نا محسوس کرے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلے کی چیخ و پکار ہے جو چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ پاکستان کا معاشرہ فحاشی کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا چکا ہے اور یہاں اب فحش مواد دیکھنا اور بانٹنا نارمل ہے۔ یہاں شادی کرنا مشکل جبکہ سڑک سے کوئی طوائف خریدنا آسان ہے۔ یہاں اب عزتیں محفوظ نہیں کیونکہ یہاں کسی کی بھی دماغی حالت ایک نارمل انسان جیسی نہیں رہی ہے۔
میں تو بس دعا ہی کرونگا کہ خدا اس سماج کو دماغی سکون دے لیکن یہ نفسیاتی مسائل بہت بری صورتحال کا اشارہ دے رہے ہیں جو کہ ناقابل اصلاح ہو چکی ہے۔