Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Pani Par Jang Ki Hawayen?

Pani Par Jang Ki Hawayen?

پانی پر جنگ کی ہوائیں؟

انڈیا کی طرف سے حکومت پاکستان کو سندھ طاس معاہدے پر تازہ ترین نوٹس پر دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں اچانک بہت اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ سانجھے دریاؤں کے پانی کا معاملہ پاکستان کی قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ انڈیا کی طرف سے یہ نوٹس 25 جنوری 2023 کو بھیجا گیا ہے کہ انڈیا اس سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی چاہتا ہے۔ 1960 میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اب تک دونوں ملکوں کے درمیان سانجھے دریاؤں کی پانی کی تقسیم کے مسئلے کو حل کرنے میں کارگر ثابت ہوا ہے اور کم از کم پانی کے معاملے پر دونوں رقیب کسی بڑے جھگڑے سے بچے رہے ہیں لیکن اب حالات بدلتے دکھائی دے رہے ہیں۔

انڈیا کا پیغام واضح ہے کہ وہ پاکستان کو دباؤ میں لانا چاہتا ہے اور پاکستان کی طرف سے دی گئی تجویز کہ "اس معاملے کو عالمی بینک کے مقرر کردہ کسی غیر جانبدار ماہر یا اس معاملے پر عالمی بینک کی طرف سے 2015 میں قائم کی گئی عدالت کے ذریعے حل کیا جائے" کو بھی نہیں مانتا۔

"پاکستان کے پانی کو روکنے کا عمل شروع ہو چکا"۔ ہندوستانی وفاقی وزیر برائے پانی مسٹر گجندرا سنگھ شیخاوت نے جب اپریل 2019 میں یہ بیان دیا تھا تو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ انڈیا پانی کے مسئلے کو پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے بطور دباؤ استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس سے پہلے ستمبر 2016 میں ہندوستانی وزیرِاعظم نریندرا مودی بھی یہ کہہ چکے تھے کہ ہندوستان سندھ طاس معاہدے کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہتا ہے۔

پاکستان پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے جس کی وجہ سے سندھ کے طاس میں بہنے والے دریاؤں میں پہلے ہی پانچ سے بیس فی صد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔ حالیہ ریسرچ بتاتی ہے کہ چناب کے کیچمنٹ کا برف سے ڈھکا علاقہ تیزی سے کم ہو رہا ہے جس کی وجہ سے چناب میں معمول کا بہاؤ بہت کم ہو سکتا ہے۔ انڈیا کی طرف سے چناب اور جہلم پپر رن آف رِور کے نام پر پانی سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ لگا کر پہلے ہی ڈھائی لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی پہلے ہی اسٹوریج کر لیا جاتا ہے۔

جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ اب انڈیا نے سندھ طاس کے معاہدے کے تحت ان پاکستانی دریاؤں کے پانی پر بھی کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ جب ہمیں سردیوں میں پانی کی ضرورت ہو تو ذخیرہ کر لے اور عارضی خشک سالی پیدا کر دے اور جب مون سون میں ہمیں پانی کی ضرورت نہ ہو تو یہ ڈھائی لاکھ ایکڑ فٹ ذخیرہ شدہ پانی چھوڑ کر معمول سے زیادہ سیلابی تباہی پہنچا دے۔ یعنی پاکستان کی طرف بہنے والے نل پر اپنی ٹوٹی لگا دی ہے۔ منگلا ڈیم میں پہلے ہی پچھلے دس سالوں کی کم ترین اسٹوریج ہے۔

دوسری طرف مشرقی دریاؤں کا سات پانی موڑ لیا گیا ہے حالانکہ سندھ طاس معاہدہ یہ بالکل نہیں کہتا کہ آپ انسانی ضروریات اور آبی و نباتاتی مخلوقات کی حیات کے لئے پانی بھی نہ چھوڑیں۔ انڈیا کے اقدامات سے چار دریاؤں کا پانی روکنے سے نہ صرف ایک پوری تہذیب کے مٹنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی آبادی میں بے تحاشا اضافے سے پاکستان کی پانی کی ضروریات بھی بہت بڑھ چکیں۔

پانی پاکستان کے لئے قومی سلامتی کا مسئلہ بن چکا ہے کیونکہ ملک کی زراعت اور توانائی کی ساری ضروریات کا انحصار انہی دریاؤں کے پانی پر ہے۔ ایسے میں سندھ طاس معاہدے میں دباؤ کے تحت تبدیلی پر اصرار دونوں ممالک کے درمیان ایک اور بڑے جھگڑے کو شروع کر سکتا ہے کیونکہ پاکستان کا خیال ہے کہ انڈیا نئے ڈیم تعمیر کر کے ان دریاؤں کا سارا پانی اپنی طرف موڑ لے گا۔

Check Also

Muasharti Zawal

By Salman Aslam