Ye Gujranwala Hai
یہ گوجرانوالہ ہے

گوجرانوالہ کے لوگ بڑے مست الست ہوتے ہیں۔ اپنے حال پہ قانع اور صابر شاکر۔ بھولے بھالے اور معصوم سے، جلیبی سے سیدھے لوگ، اتنے سیدھے کہ اگر پتہ بھی چل جائے کہ یہ ایک غلط رواج یا کام ہے جو ہمارے ہاں صدیوں سے رائج ہے، پھر بھی اسے درست نہیں کرتے، بلکہ اپنی لاعلمی کو فخریہ گود میں لئیے مزید پرورش کرتے رہتے ہیں۔ بے فائدہ اور فائدہ مند دونوں محنتیں رج کے کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی تمام رمزیں بن کہے ہی جانتے ہیں، مثلاً چھت پہ سے الماری اتارنی ہو تو بنا آپس میں بات کیے سویرے سویرے کام پہ لگ جائیں گے۔
سیڑھیوں سے اوپر والا اوپر کھینچتا رہے گا، اور نیچے والا نیچے۔ پسینوں پسین ہوجائیں گے، منہ لال انگارا ہو جائے گا، کانوں میں سے دھواں نکلنے لگے گا اور منہ سے شدید قسم کی پیچ دار، ناقابلِ اشاعت گالیاں۔ اس الماری کی ماں بہن ایک کر دیں گے، لیکن ایک دوسرے سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ الماری اوپر جانی ہے یا نیچے اتارنی ہے۔ آپس میں اتنی شدید محبت کرتے ہیں، کہ وسائل اور ضرورت ہونے کے باوجود پانچ بھائی آبائی گھر میں ہی رہتے رہیں گے۔ اور اگر بچے شادی کی عمروں کو پہنچ جائیں تو کابک کی طرح ڈبی دار منزلیں بناتے جائیں گے چاہے سانس نکلے یا نہ نکلے۔
بند کمروں میں چھپا چھپا کے اور رج رج کے کھائیں گے۔ لیکن ساتھ والے کمرے میں خبر نہیں ہونے دیں گے۔ وقت کو اچھی طرح سے ضائع کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ شادی کارڈ پر وقت کی پابندی کی تاکید آٹھ بجے لکھی ہوگی۔ مارکیوں والے لائیٹس بند کرنی شروع کریں، تو گھر والے ہی مساں مساں پہنچتے ہیں۔ پھر مارکی کے منیجر کو ایک پہلوانی دبکا لگا کر اور مزید پیمنٹ کر کے دو گھنٹے کا وقت لیتے ہیں، اور بھاگم بھاگ عجلت میں تقریب نپٹاتے ہیں۔ کسی کو ملنے کا وقت دے کر ایسے بھول جائیں گے جیسے چھت پہ کپڑے سوکھنے ڈالتے ہیں۔
وعدے ہزاروں کریں گے لیکن منہ پر، پھر ایسے بھول جائیں گے جیسے ہم موت کو بھولے بیٹھے ہیں۔ چھ دن رج کے بے اعتدالیاں فرمائیں گے، جمعہ کو سات ہزار کا لٹھے کا کلف لگا سفید جوڑا پہن کے تمام گناہ بخشوا لیں گے۔ لاہور سے آرہے ہوے کسی ایمرجنسی والے ملاقاتی کو کہیں گے، ماما میں گھار بیٹھاں توں آئی آ، بھنیوا کہے گا، میں تیرے بوہے اگے کھلوتاں آں۔ منہ دھو کے باہر نکل میں سامنے چاء پینا واں۔ اور مامے اور پھنیوے کا ٹاکرا مریدکے کےٹول پلازے پر ہوگا۔ ایک دوسرے سے نظریں چرا لیں گے۔
پھنیوا موبائل پہ پوچھے گا استاد جی کتھے او؟ ماماں میں تینوں اپنے بوہے اگے اڈیک رہیاں واں، توں کتھے ایں دس نئیں رہیا۔ بیویوں کو رج کے شاپنگ کروائیں گے۔ ہر برانڈ پہ لے جائیں گے، لیکن اردو کو منہ میں ڈال کر نرم کریں گے تاکہ ڈھیلے منہ سے پنجابی میں بول سکیں۔ برانڈز اور مالز پہ انکی پنجابی کو سخت شرم آنے لگتی ہے۔ بعض گوجرنوالویوں کا منہ اتنا ڈھیلا ہوتا ہے، کہ بولنے کا ارادہ فرمائیں تو الفاظ ڈھیلے منہ سے بہنے لگتے ہیں۔ چلمچی کی شدید ضرورت ہوتی ہے، کہ کہیں پچکاری کپڑوں کو رنگدار نہ کر دے۔
بچوں کو بھاری بھاری فیسیں اور وین کے کرایے بھر کے پڑھائیں گے، لیکن وہ پڑھ لکھ کر پھر وہیں پہ کھڑے ہوجائیں گے، جہاں ابا جی کی ہٹی یا ٹھیا ہوگا۔ مہنگا پہنیں گے، کھلا کھائیں گے، پیٹ پہ ہاتھ پھیر کے اسکا رقبہ ناپیں گے، لیکن گھر کا رقبہ نہیں بدلیں گے۔ بجلی کی مرمت طلب گھریلو اشیاء اٹکل سے چلا لیں گے، لیکن وائر نہیں بدلیں گے۔ گوجرانوالہ کی عورتیں کھانا بہت اچھا اور سونگھ سونگھ کے پکاتی ہیں، اور ہر بات پہ نخرے سے ناک بھی چڑھاتی ہیں۔ مہنگے سے مہنگا جوڑا پہنتی ہیں، اور زمین پہ پھسکڑا مار کے بیٹھ جاتی ہیں۔ یہی بیبیاں شوق کے مارے کام والی رکھ لیں گی، لیکن انہیں چائے پلا کے، ان سے گپ لگا کے رخصت کر دیں گی، اور پھر ہاتھ جھاڑ کے خود ہی کمر کس لیں گی۔
گوجرانوالہ کے لوگ کھانے کے اتنے شوقین ہیں، کہ اتنے لوگ نہیں ہیں جتنے کھابے اور ریڑھیاں ہیں۔ کھانا کھا کے بھول جاتے ہیں۔ معصومیت سے روٹی پہ پھر روٹی کھا لیتے ہیں۔ کوئی پوچھے گا، بٹ صاحب روٹی کھا لئی جے، بٹ صاحب فرمائیں گے کوئی نئیں، کیہڑا تیرے نال کھادی اے۔ کھابے رج کے کھائیں گے، پیٹ میں گنجائش سے زیادہ ڈالیں گے اور طویل ڈکار فضا میں آزاد چھوڑ دیں گے۔ کہانی ابھی چل رہی ہے ساتھ ساتھ ایڈیشن ہوتا ریے گا، آپ کے شہروں کے کیا احوال ہیں؟

