Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Tiljhat

Tiljhat

تِلچھّٹ

میں نے اسے صدقے کے ایک ہزار دئیے۔ اس نے چپ چاپ لےکے پلو میں باندھ دئیے جیسے یہ معمول کی بات ہو، ہزار روہے کا نوٹ اگر صدقہ یا خیرات کی مد میں دیا جائے تو معقول ہی ہوتا ہے اور پھر جو رقم اچانک مل جاۓ اس کی الگ سے خوشی ہوتی ہے، کئی طرح کی چھوٹی موٹی آسانیاں خریدی جا سکتی ہیں لیکن اس کے چہرے پہ ایک معمول پن کا تاثر تھا۔

مجھے بہت برا لگا کوئی دعا ہی دے دیتی یا چلو شکریہ ہی کہہ دیتی، یہ سب نہیں تو مسکرا ہی دیتی کیا تھا اگر آج ٹیرس کے دروازے کی دھول جھاڑ دیتی، یہ صوفہ کشن ہی دھونے کی پیشکش کر دیتی، میں نے دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتے ہوئے سوچا۔ جمعہ کے جمعہ اکثر لوگ خیرات کرتے ہیں میں بھی جب چھوٹی موٹی خیرات کروں تو جمعہ کا دن ہی منتخب کرتی ہوں تاکہ دن یاد رہے اور آٹھ دن عافیت کے حصار میں رہیں۔

اس خیرات کے لینے پہ بھی اس کے چہرے پہ کبھی کوئی ہلکی سی چمک بھی دکھائی نہیں دی، عجیب بے حس عورت ہے میں سوچا کرتی۔ اس سے پہلے سلمیٰ تھی اس کے ساتھ کوئی چھوٹی سی بھی مہر کرتی اس کے منہ سے میکانکی انداز میں دعائیں جاری ہو جاتیں، منہ بھر بھر کے دعائیں دیتی۔ مجھے لگتا میری خیرات قبول ہوگئی ہے۔ ابھی فطرانے دینے تھے قریب قریب میں سب سے زیادہ حقدار وہی تھی۔

میں نے کئی دن تک روکے رکھے کہ اسے تو کوئی فرق نہیں پڑتا میں کسی اور ضرورت مند کو بھجوا دوں گی، اسے تو کئی بار دیتی ہی رہتی ہوں دل میں پکا ارادہ کئے بیٹھی تھی۔ اپنے خیالوں میں رکھ رکھ کے کئیوں کو سوچا لیکن ڈھونڈے سے بھی کوئی ایسی نہیں ملی، مجھے اپنی معمولی رقم کے بدلے ربّ سے زیادہ ثواب چاہئے تھا۔ روزے اور گرمی سے باہر نکلنے کو بھی جی نہیں چاہتا ورنہ قریبی بلڈنگز کے فلیٹس جنوبی پنجاب کے باسیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔

خاندانوں کے خاندان پڑے ہیں بہت سی بال بچے دار ہیں چھ، سات سے کم بچے کسی کے نہیں ہیں۔ اس معمولی سی رقم کے لئے کیوں گرمی میں نکلوں؟ کل دروازے پہ جو سب سے پہلے آئے گی اسے دے دوں گی میں فیصلہ کر کے مطمئن ہو گئی۔ اتفاق سے کوئی نہیں آئی کل مجھے خدشہ ہوا کہ اسی ڈھونڈ میں عید آجائے گی اور میرا لاکھوں کا متوقع ثواب صفر پہ چلا جائے گا، اپنے خدشے میں گھر کر سوچا اور گھبرا کے فطرانے اسی کو پکڑا دئیے۔

اس نے حسبِ معمول بے تاثر چہرے کے ساتھ اور بغیر کسی خوشی کے اظہار کے چپ چاپ پلو میں گرہ دے کے رکھ لئے اور جھاڑو دینے لگی، مجھے کافی تپ چڑھی ضبط کئے رکھا، جونہی وہ نکلی میں پھٹ پڑی۔ کیسی ناشکری عورت ہے ایک لفظ شکریہ کا نہیں، کوئی دعا نہیں، کوئی خوشی نہیں۔ اس کے کئی مسائل حل ہوجانے ہیں اس رقم سے میں نے تلملا کے زہر اگلا، صاحب نے غور سے میرا چہرا دیکھا جھنجھلاتی بڑبڑاہٹ سنی اور ہاتھ پکڑ کے صوفے پہ بٹھا لیا۔

کتنی بڑی رقم دے ڈالی ہے جو یوں تلملا رہی ہیں؟ میں نے غصہ سے انہیں دیکھا۔ کیا یہ آپ کی رقم تھی؟ کیا اپنی کوئی ضرورت روک کے دی ہے؟ یہ تو آپ کا فرض تھا جو اس نے گھر آ کے وصول کیا آپ کو جانے کا کشٹ نہیں اٹھانا پڑا۔ میں گڑبڑا گئی دل پہ جمی کائی پہ جیسے لیموں نچوڑا گیا ہو، بڑائی کی تلچھٹ پھٹ گئی لیکن ملال ابھی بھی چکنائی کی طرح تیر رہا تھا پھر بھی انسان کبھی دعا، کبھی شکریہ ہی ادا کر دیتا ہے۔

میں نے جواز پیش کیا۔ آپ کو ہر ماہ ایک معقول رقم دیتا ہوں جو اصل میں ربّ دیتا ہے، مجھے نہیں یاد کہ آپ نے وہ رقم لے کے کبھی ربّ کا یا میرا یعنی اس کے وسیلے کا شکریہ ادا کیا ہو؟ بلکہ آپ ایک معمول کی طرح ہی لیتی ہیں اور لاپروائی سے دراز میں ڈال دیتی ہیں پھر پورا مہینہ نکال نکال کے خرچ کرتی رہتی ہیں، کیا کبھی ربّ کا شکر ادا کیا کہ اللہ تیرا شکر ہے، رب کو دعا دی ہے کہ اللہ اس آسانی کے بدلے تیری شان بلند ہو؟

شکر گزاری کے کتنے سجدے ادا کئے ہیں؟ ربّ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے آپ کو حقدار ڈھونڈنے کی تکلیف سے بچا لیا گھر پہ ہی بھیج دیا اور گھر بیٹھے آپ کا فرض ادا ہوگیا۔ آپ کا ہاتھ اوپر رکھا ہوا ہے ورنہ پھیلی ہتھیلی والا بھی بنا سکتا تھا، کسی کی نظریں آپ کے چہرے پہ بھی شکر تلاش کرتی رہتیں اور شکر نہ پاکے تلملاتی رہتیں کیونکہ آپ بھی کبھی اس رقم کے بدلے شکر ادا نہیں کرتیں۔

آپ کو معلوم ہے ایک لگی بندھی رقم آپ کو ایک مخصوص تاریخ پہ مل جانی ہے اسی لئے ایک آسودگی اور بے فکری آپ کے چہرے پہ رہتی ہے، اس غریب کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کوئی اچانک غیبی امداد ملنے والی ہے تبھی تو اس کے چہرے پہ پریشانی کھنڈی رہتی ہے۔ کبھی ضرورت پڑنے پر بھی مانگتی نہیں ہے پیٹ میں جھانکنے پہ قادر ہوتیں تو اس کا پیٹ آپ کو اکثر بھوکا اور خالی ہی ملتا۔

صاحب کی باتوں سے میرے دماغ میں جمی چکنائی اور تلچھٹ کٹ چکی تھی اور میں ندامت سے ٹھنڈی ٹھار ہو چکی تھی بلکہ تاحیات ہو چکی تھی۔ واہ میرے مولا تیری شان نرالی ہے تو زندگی بھر ہمارے لئے ہدایت اور سیکھ اتارتا رہتا ہے ہر دن ایک نیا سبق دے کے جاتا ہے، ہم سینہ کشادہ کرنے والے تو بنیں دل کھولنے والے تو بنیں، سننے، سمجھنے والے تو بنیں۔

Check Also

Dostan e Rahim Yar Khan, Hamari Mazrat Qubool Kijiye

By Haider Javed Syed