Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Qisaa Aik Heroine Ka

Qisaa Aik Heroine Ka

قصہ ایک ہیروئن کا

آج پھر اسکی نظروں کے سامنے سے ایک پوسٹ تھی جس میں عمیرہ احمد کی ہیروئن کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ اسے پھر سے افسوس ہوا جبکہ سچ تو یہ ہے کہ ارد گرد کتنی ہی ہیروئنیں چپ چاپ متحرک ہیں۔ بلکہ ناسمجھی اور انجانے میں وہ بھی اپنا مذاق خود ہی اڑانے کی مہم میں شامل ہیں۔ وہ برس ہا برس سے تماشہ دیکھ رہی تھی۔ عمیرہ احمد کی ہیروئن بننا کب مشکل تھا اس نے ایک آسودہ سی سانس لی سو وہ اپنے دفاع میں خود ہی نکل آئی۔ یہ سچ تھا کہ اس کی زندگی میں بہت سی کامیابیاں عمیرہ احمد کی مرہونِ منت تھیں۔

اسے لڑکپن سے ہی افسانے پڑھنے کی لت لگ گئی تھی۔ بعض افسانوں میں ہیروئن کو اتنا سگھڑ اور سلیقہ مند دکھایا گیا ہوتا کہ اس کا دل خود بخود ویسا ہی بننے کو مچلنے لگتا کیونکہ اسکے سینے میں بھی ایک ہیروئن کا دل دھڑکتا تھا۔ عمر چونکہ زیادہ ہی چھوٹی تھی اس لئے ہیرو میں کچھ زیادہ دلچسپی محسوس نہیں ہوئی اسے ایک سائیڈ پہ کر دیا اور ہیروئن والے گن چن چن کے اپنی ذات میں سمیٹنے لگی۔ ادھر ایک افسانہ پڑھتی اسکی ہیروئن کی روح اس میں حلول کر جاتی اور وہ ویسی ہی بننے کی کوشش شروع کر دیتی۔

جب ویسا کچھ کر لیتی تو روح میں ایک طمانیت اتر آتی ماں کے گھر میں ایک ٹف روٹین تھی۔ اسکی ماں بھی کسی افسانوی ہیروئن سے کم نہیں تھی۔ ایک ہیروئن کو وہ اپنے تخیل میں ڈائجسٹ میں متحرک دیکھتی تو دوسری کو اپنی ماں کے روپ میں عملی طور پہ دیکھتی اس کے پانچ بہن بھائی تھے اور پھر رشتہ داری، برادری گھر میں ہر وقت میلہ سا لگا رہتاچائے شربت بنتے رہتے۔ گھر میں کوئی گوشۂ عافیت نہیں تھا ماں کے کسی نہ کسی کام میں مشغول چوکنّا کان اور سخت تنبیہی نگاہیں ہر وقت پیچھا کرتی رہتیں۔

ماں صبح سویرے جگا دیتی فجر کے بعد انکے ہاں گھر داری کے بکھیڑے شروع ہو جاتے گھر داری میں ماں کا کلیہ تھا صبح سویرے کام میں ہاتھ ڈال دیا جائے تو پورے دن میں برکت پڑ جاتی ہے۔ جس دن کوئی کام ذرا سا تاخیر میں چلا جائے پورا دن کاموں کے پیچھے بھاگنا پڑتا کام قابو میں نہ آتے اسی لئے گھر داری کو بنا گھنٹی بجائے وقت پہ کرنے کا معمول تھا۔ دوپہر کے کھانے تک روز مرہ کی صفائی، ستھرائی، دھلائی اور پکائی کےبہت سے کام نمٹ جاتے۔ گھنٹہ ڈیڑھ آرام و قیلولہ کا وقفہ ہوتا۔

شام چار بجے پنکھے بند کر کے چھت پہ پانی ڈال کے چارپائیاں ڈال دی جاتیں عصر کے بعد سلائی کڑھائی کے کئی کام ان دو گھنٹوں میں کر لئے جاتے مغرب ہونے تک تمام پورے، ادھورے کام کل کے لئے اٹھا لئے جاتے پھر رات کا ریندھنے پکانے کا آر شروع ہوتا اسی سخت تربیت سے گزر کے جب شادی ہوئی تو ہیروئن کو کوئی مسٔلہ نہیں ہوا فرمانبرداری کی عادت گھٹی میں پڑی تھی۔ کچھ وہ ماحول میں ڈھل گئی کچھ انہوں نے خوشدلی سے قبول کیا سسرال قدر دان تھی کسی گھریلو سیاست اور اکھاڑ پچھاڑ کا رواج نہیں تھا سو بہو کی سلیقہ مندی اور فرمانبرداری کے ڈنکے بج گئے۔ بچے ہونے کے دوران ساس نندیں تھیں مل ملا کے سنبھال لیتیں وقت چٹکیوں میں گزر گیا۔

بچے بھی ہر دم صاف ستھرے نظر آتے وہ بھی بنی سنوری رہتی جب تک سب کے ناشتے پانی سے فارغ ہوتی بچے دادی دادا کے پاس گھسے منہ میں فیڈر ڈالے کلمات اور سورتیں اور نعتیں سنتے رہتے۔ جب کہ ادھر ادھر کے بچے وائرل ہوئے گانوں پہ ٹھمکے لگا رہے ہوتے اس کے گھر آئے مہمان بچوں سے کلمے اور نعتیں سن کر خوش ہوجاتے تو اسکے تاج میں عمیرہ احمد کی ہیروئن کے پر سجنے شروع ہو ئے اس کی شادی کے وقت ابھی لڑکوں کا گھر سے باہر رات گئے تک گھومنا معیوب سمجھا جاتا تھا کسی کسی دن اسکا دیور دوستوں کو ڈرائنگ روم میں بلا لیتا مل کے موویز دیکھتے۔ وہ دو دفعہ چائے بنا دیتی چپکے سے بسکٹ کی پلیٹ یا پاپڑ بھی تل دیتی۔

لیکن یہ روز نہیں ہوتا تھا کبھی کبھی جب سسر کہیں دوسرے شہر میں کسی کی غمی خوشی میں شریک ہونے چلے جاتے بس تب اس خدمت کے عوض بنا کسی کے معاہدے کے دیور اسکے کئی کام آسان بنا دیتا اس کا شوہر دوسرے شہر میں تھا ہفتے پندھرواڑے میں چھٹی آتا تھا۔ دیور وقت پہ سودا سلف لا دیتا۔ سبزی گوشت وقت پہ آجانے سے ہانڈی روٹی جلدی بن جاتی تو کتنا ہی وقت بچ جاتا۔ اس بچے وقت میں اس کے ہاتھوں میں خارش ہونے لگتی کہ کچھ کر لیا جائے کبھی کوئی جوڑا اپنا یا ساس نند کا سی لیتی لیکن یہ روز نہیں ہوتا تھا بس کبھی کبھی پورے محلے میں ڈھنڈیا مچ جاتی کہ بہو رانی کپڑے بھی سی لیتی ہے تب عمیرہ احمد کی ہیروئن کا ایک پر اسکے تاج پہ سج جاتا۔

گھر میں سب ہی تعاون کرتے بس سویرے ذرا جلدی اٹھنا پڑتا تھا نندوں کو سکول جانا ہوتا تھا۔ اس نے ماں بہنوں سے کبھی لمبی لمبی کالز نہیں کیں فضول گوئی میں وقت ضائع نہیں کیا نہ ادھر کی ادھر اور نہ ہی ادھر کی ادھر لگائی ماں کو بھی اتنی فرصت نہیں تھی کہ بیٹی سے کرید کرید کے سسرال کے احوال لیتی اسے اپنی تربیت پہ بھروسہ تھا۔ اسکی ساس کو بھی ماں کی طرح لمبی دوپہروں میں نیند نہیں آتی تھی۔ کبھی گندم صاف کر لیتیں کبھی چاول کبھی فصل کے سنبھالے بیجوں کو دھوپ لگوانی ہوتی وہ خاموشی سے کرتی رہتیں۔ عمیرہ احمد کو پڑھ پڑھ کے اسے ان نئے کاموں میں بڑی دلچسپی لگتی سو وہ بھی ساتھ ہی شامل ہو جاتی۔

اس کے آنے کے بعد ساس نے مدتوں سے فرصت کے انتظار میں اپنے سینت کے رکھے ہوئے کئی کام پیٹی میں سے نکال لئے سٹور میں رکھے چرخے کو کھینچ تان کے سیدھا کیا اور کپاس سے دھاگہ بنانے لگیں روتے منّے کو چرخے کے پہیے سے بہلاتے اسے یہ کام بڑا دلچسپ لگا شائد میں بھی کر سکتی ہوں۔ اشتیاق سے ساس کے ہاتھ سے پونی لیکر چکّا گھومانا شروع کیا۔ گھوم چڑرخڑا گھوم کی دھمال میں من جھومنے لگا اور آپوں آپ دھاگہ بننے لگا دادی کی گود میں منا بھی سو چکا تھا لوجی ساس نے پورے محلے میں ڈھنڈھورا پیٹ دیا کہ بہو نے چرخہ کاتنا بھی سیکھ لیا ہے۔ اس کے تاج میں عمیرہ احمد کی ہیروئن کا ایک پَر اور نکل آیا۔

گھر میں کچن گارڈن پہلے ہی سے موجود تھامالی بھی آتا تھا لیکن گھر والوں کی بے توجہی کا شکار تھا کچن کے عقب میں تھا تو کھانے پینے کی بچی ہوئی اشیاء وہیں ڈال دی جاتیں جسے پرندے چن لیتے۔ اس نے برتن دھوتے دھوتے املی خربوزے کے بیج وہیں ڈال دئے برسات کا موسم تھا چند دنوں میں بیج پھوٹ پڑے تو اس نے تحریک پا کے دھنیا، پودینہ اور پالک وغیرہ لگوا لی۔ لو جی بگیا میں بہار آگئی سسر وہیں گوڈی پانی کرنے لگے اور کچن گارڈن ایک چھوٹے سے کھیت میں بدل گیاکیاریوں میں رنگ برنگے گلاب اور کئی موسمی پھول بھی بہار دکھانے لگے۔ اب اسکے تاج میں عمیرہ احمد کی ہیروئن کا ایک پر اور اگ آیا۔

وقت رکتا نہیں گزرتا رہتا ہے نندیں اپنے گھر کی ہوگئیں دیور کا گھر بس گیاسب کے اپنے اپنے گھر بن گئے بچے بڑے ہوگئے کئی طرح کے کاموں اور ذمہ داریوں کی نوعیت بدل گئی۔ لیکن جو جو کام وہ اپنے وقت پہ کرتی رہی انکے پَر اعزاز بن کے اس کے عمیرہ احمد کی ہیروئن والے تاج پہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اگ کر اسکی ذات کا حصہ بن گئے۔ رمضان کا ذکر ہو تو پورے دن میں بہت وقت ہوتا ہے چار پانچ ڈشز بنانے میں اپنا نماز روزہ کرنے میں یہ صرف رمضان میں ہی کرنا ہوتا لیکن چرچا پورے سال رہتا اسکا ہیرو کوئی فلمی ہیرو نہیں تھا جو ساڑھے چھ فٹ قد، سنہری موچھیں، یونانی ناک، اور سلکی داڑھی کا مالک ہوتا۔

لیکن اسے ان تمام فلمی ہیروز پہ سبقت حاصل تھی کیونکہ وہ اسکا اپنا تھا پہلے اکھڑ تھا تو کیا ہوا اب تو ہر دکھ سکھ کا سانجھی اور ساتھی تھا اس کے من کی ہر بات بوجھتا تھا۔ اس کا ہیروئن کے پروں والا تاج اب خوشنما اور مکمل ہو چکا تھا۔ روز مرہ کی زندگی اتنی مینج اور خوبصورت نہیں ہوتی نہ ہی مشکلات سے نمٹنا کچھ آسان ہوتا ہے البتہ جب رواں زندگی کو تحریر کیا جاتا ہے تو بیان میں خود بخود ایک ترتیب اور نمبر واری آجاتی ہے۔ جسے ایک ایک کر کے پڑھنا ہوتا ہے مشکلات جب گزر جاتی ہیں تو اپنے ساتھ درد کو بھی سمیٹ لیتی ہیں فقط بیان میں درد نہیں گوندھا جاسکتا۔

گھر داری اور سگھڑاپا ایک مکمل پیکج ہے سب کچھ ایک ہی دن میں وقوع پذیر نہیں ہوجاتا نہ ہی عمیرہ احمد کی ہیروئن کوئی جادو گرنی ہے جو وڈی سرگی سے اٹھ کر اپنے من کی آٹو میٹک موٹر کا بٹن دبا کے کاموں میں جت جاتی ہے اور سوئی سلائی سے لیکر کھیتی باڑی یا کوئی جاب کرنے تک باپ کی ناگہانی موت کی وجہ سے اپنی پڑھائی، بہن بھائیوں اور گھر کو سنبھالا دینے تک ہیرو پھانسنے کا الزام لگنے سے لے کر شادی ہونے تک سب ایک جادو کی چھڑی گھما کے کر لیتی ہو زندگی آزادی نہیں ایک قید کا نام ہے بس من کی مرضی کے ناگ کا سر کچل دیا جائے تو ہیروئن بن جانا کیا مشکل ہے۔

البتہ اس تمام پیکج کا تذکرہ ایک ہی کہانی یا افسانے میں سمیٹ دیا جاتا ہے۔ اگر افسانوں کو غور سے پڑھیں تو تمام افسانہ ایک دن کی روداد نہیں ہوتی اس میں کئی برسوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood