Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Muashrti Masawat

Muashrti Masawat

معاشرتی مساوات

ٹوٹا ٹالے نہ ٹلے جب تک مِٹے لیکھ

سادھ کہیں دے بالکے لاکھ جتن کر دیکھ

چشمہ ہمارے خوابوں کی اور ذہنی تربیت کی سرزمین رہا ہے۔ پورے پاکستان کے انسانی رویے اور رسم و رواج قریبی مشاہدے میں رہے جس کی وجہ سے مختلف معاشرت کی بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئیں اور اچھی رسومات سے آگاہی بھی ملی۔

ہمارے پڑوس میں مقیم کرنل صاحب کی مسز کو اپنے کیپٹن بیٹے کے لئے ڈاکٹر بیوی کی تلاش تھی۔ ایک اور سینئر آفیسر کی بیگم اپنی خوبصورت ہاؤس جاب میں مصروف ڈاکٹر بیٹی کے لئے رشتے کی متلاشی تھیں۔ دیکھنے سننے والوں نے انہیں ایک دوسرے کا پرفیکٹ میچ بتایا اور کہا کہ فلاں صاحب کی بیٹی دیکھ لیجیے، آپکی ڈیمانڈ کے مطابق خوبصورت بھی ہے اور ڈاکٹر بھی۔ کہنے لگیں کہ پہلے کوئی بچی کی عمر پتہ کرے، میرے بیٹے سے اگر ایک دن بھی بڑی ہوئی تو میں سلسلۂ جنبانی شروع نہیں کروں گی۔ اندر کا حال معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ قدغن انکے بیٹے کی لگائی ہوئی تھی یا وہ خود ایسا چاہتی تھیں، سات آٹھ برس پرانی بات ہے۔

بہرحال ان دونوں کی شادی تو الگ الگ جگہوں پہ ہو گئی، اپنے اپنے گھروں میں اپنے بال بچوں کے ساتھ رَس وَس رہے ہیں، اللہ آباد رکھے۔ یہ تو ہوگئی مدعا کی تمہید۔ ہم سوچتے ہیں ہمارے دماغ بھی دولے شاہ کے چوہوں والی ٹوپی پہنے ہوئے ہیں، جب ہم بیٹی کے لئے بَر کی تلاش میں نکلتے ہیں تو چاہتے ہیں لڑکا ایک دو برس بڑا اور قد میں چھ انچ یا ایک فٹ بڑا ہو۔ بیٹے والے بھی چاہتے ہیں کہ بہو دو چار یا چھ برس عمر اور قد میں چھوٹی ہو، دبلی پتلی گوری چٹی ہو اور پروفیشنل ڈگری یافتہ بھی ہو۔ لڑکا لڑکی بھی یہی چاہتے ہیں کہ لڑکا بڑا اور لڑکی چھوٹی ہو لیکن بات تو برابری کی ہے، چھوٹی لڑکی خاک برابری کرے گی اور جہاں اس خود ساختہ اصول کی پابندی نہیں کی جاتی وہاں یہ جوڑا معاشرے میں اجنبی نظر سے ہی دیکھا جاتا ہے۔

چشمہ ہی میں ایک لڑکی کسی انجینئر کے ساتھ شادی ہوکے آئی۔ ایک کِٹی پارٹی میں میرے گھر بھی مدعو تھی، پونے چھ فٹ کی ماڈل فگر لڑکی تصویر کے جتنی خوبصورت تھی اور انگلی لگانے سے میلی ہونے کا خدشہ تھا، لڑکی تھی گویا کہ کسی شاعر کی مجسم غزل یا کسی مصور کی پینٹنگ۔ بے حد خوش مزاج اور چونچال سی۔ چند روز گزرے اسی کپل سے فارمیسی کے باہر ملاقات اور سلام دعا ہو گئی، ہمیں ایک جھٹکا سا لگا جسے لڑکی نے ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ واضح طور پہ محسوس کیا۔ زوجاسے سے کم سے کم ایک فٹ چھوٹا تھا، کئی دن لگے اس حقیقت کو قبولنے میں۔ جبکہ جوڑا بہت خوش باش تھا اور یہ لو میرج تھی۔

دو تین عشرے قبل، لڑکا لڑکی سے آٹھ دس سال بڑا ہوتا تھا پھر بھی رشتے آسانی سے نبھ جاتے تھے، کہ عورت مرد سے چند سال چھوٹی ہو اور اس سے دب کر دو قدم پیچھے چلے تو دو طرفہ عافیت رہتی ہے، عائلی نظام میں گھڑمس نہیں مچتا۔ پھر ایک طبقہ اٹھا کہ نہیں عورت اور مرد کو شانہ بشانہ چلنا چاہئے، عورت دو قدم پیچھے کیوں چلے؟ بلکہ کچھ نے تو یہاں تک کہا کہ مرد کو چاہئے اپنی عورت کو دو قدم آگے چلائے تاکہ اسے دنیا میں اپنی بقا کی جنگ جیتنی آئے۔ کہیں بہت گہرا برادری سسٹم یا وٹہ سٹہ رائج ہو تو 1 پرسنٹ بڑی لڑکیاں اور چھوٹے لڑکے باندھ دئیے جاتے ہیں، لیکن یہ رشتہ دونوں کے لئے غیر متوازن ہی کہلاتا ہے۔

مردوں کی دوسری شادی اور ایسے کئی معاشرتی مسائل ہیں جو سوشل میڈیا کے ہاٹ ایشوز ہیں اور چھڑے ہی رہتے ہیں۔ سوچ بن رہی ہے کہ جب یہ طے ہے کہ لڑکا ہمیشہ لڑکی سے بڑا ہو تب ہی رشتہ بیلنس رہتا ہے، کیا معاشرے میں یہ سوچ پروان نہیں چڑھ سکتی کہ دو مخالف جنس کے جوان لوگوں میں اگر کبھی کبھی، لڑکی قد میں ایک فٹ اور عمر میں چار چھ برس بڑی بھی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے؟ بلکہ اس رجحان کو بھی نارمل بننا چاہئے، بات تو برابری کی ہے جب یہ رواج عام ہوجائے تو اب اگر کبھی بیوی آگے چلے اور شوہر پیچھے کبھی برابر اور کبھی بیوی دو قدم پیچھے اور شوہر آگے آگے، تو ہی معاشرتی مساوات قائم ہوگی۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari