Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Mara Hua Admi (2)

Mara Hua Admi (2)

مرا ہوا آدمی (2)

میری خواہش تھی میری بیوی ان جیسی شکل و صورت کی ہو، میری خواہش اور میرا خواب تھا لیکن شائد میری نادان عمر کا فضول تقاضہ تھا۔ ازل نے میری قسمت میں عمر سے چار سال بڑی یہ بارہ من کی دھوبن لکھ دی تھی۔ مجھے دبلی پتلی نازک کمر پہ سنہری لہراتے بال پسند تھے، اسکے بال گردن سے پہلے ہی ختم ہو جاتے تھے مجھے ہلکے رنگ پسند تھے جبکہ وہ ہر وقت شوخ اور چیختے رنگوں کے گولا گنڈا سے رنگ پہنتی تھی، جولاہوں اور اڈنیوں والے میل خورے رنگ چڑھائے رکھتی تھی۔ ہلکے رنگوں والے سرسراتے ملبوسات جو طبعیت کو ایک تاثر کے ساتھ ٹھنڈک اور نزاکت بخشتے ہوں میری پسند تھے لیکن اسے سخت ناپسند تھے ملبوسات خریدتے وقت وہ اسی ریک کا انتخاب کرتی جہاں چبھنے والے شوخ رنگ سجے ہوتے۔

کئی طرح کے مہنگی کریموں کے استعمال کے بعد بھی سردی، گرمی میں پیروں کی ایڑھیاں پھٹی رہتی تھیں اور پھٹی ایڑھیوں سے مجھے ابکائی آنے کی حد تک نفرت تھی اور ہے۔ میں چاہتا وہ نازک سا بریسلیٹ پہنے اسے اپنی خاندانی امارت اور خوشحالی کے دکھاوے کے لئے ہر وقت بھاری سونے کے زیورات لٹکانے کی عادت تھی جسے اس نے باوجود میری شدید خواہش کے اپنانے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے غصے سے سر پٹخا۔ میری بے ربط سوچوں کا سلسلہ پھر بھٹکا اور ماضی کی مزید تنگ گلی میں جانکلا۔

سی ایس ایس میں، میں ملک بھر میں ساتویں پوزیشن لے کے کامیاب ہوا تھا اور امتیازی طور پر میں نے اپنے لئے فارن منسٹری کا شعبہ چنا تھا کیونکہ مجھے ملکوں ملکوں گھومنے کا شوق تھا۔ جاب سے یہ شوق تو پورا ہو رہا تھالیکن دل مر چکا تھا۔ کامیابی کے بعد اور کئی سالوں کی ترقی کے بعد اب میں دنیا کے آدھے ممالک تو دیکھ ہی چکا ہوں لیکن اس طرح گھومنے پھرنے کی خواہش کبھی نہیں تھی۔ نوکری کے دوران پنجاب میں اور فیڈرل میں کئی قیمتی پلاٹ میری نظر کئے گئے گنتی کے چند برسوں بعد میری ریٹائرمنٹ دستک دے رہی ہے، اس ناپسندیدہ بیوی سے ہونے والے میرے تینوں لڑکے کب میرا قد پھلانگ گئے تھے مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔

میں عہدہ دار تھا دن میں آٹھ گھنٹوں کے لئے، باقی کے گھنٹوں میں بیوی اس عہدے کا بھرپور استعمال کرتی۔ خاندان بھر میں صاحب کی بیوی گردن اکڑا کے گھومتی رہتی لیکن میرے عہدے کا دبدبہ کبھی میرے کسی بہن بھائی کے کام نہیں آنے دیا، مجھ سے پہلے میری بیوی تمام ضرورت مندوں کو باہر ہی باہر سے نمٹا دیتی جس سے میرے عزیز رشتے دار مجھ سے کھنچ گئے۔ دنیا کی کونسی آسائش تھی جو میرے قدموں میں نہیں تھی۔ گاڑی میں ہر سال چھ ماہ بعد بدل لیتا تھا، ایک سے بڑھ کے ایک گاڑی میرے نیچے رہتی تھی لیکن اصل کمی رہ گئی تھی جو خلش بن گئی ہے۔

آج اس گلدان کے چھناکے سے میں ہوش میں آگیا تھا میری آنکھوں نے گرد و پیش کو ایک اجنبیت سے دیکھا۔ مجھے آج پھر اپنی بیوی سے اتنی ہی شدید نفرت محسوس ہوئی جتنی شادی کے اولین دنوں میں ہوا کرتی تھی۔ عمر میں بڑی تھی اور بے حد کائیاں تھی، سال بھر میں میری بے رغبتی کو بھانپ گئی ہم ترکی کے دورے سے واپس آئے تو اس نے اپنے بھائیوں سے میری شکایت کر دی اور انہوں نے بڑی حکمت سے مجھے ہینڈل کیا، مجھے کئی طرح کی سہولیات کے لالی پاپ دے کر بہلا لیا اور زیر بار کر لیا۔

میں اگر اچھے لائف سٹائل کا خواہاں نہ ہوتا تو شائد نہ بہلتا انہوں نے میری کمزوری سے فائدہ اٹھا لیا جیسے بچوں کو کھلونوں سے بہلایا جاتا ہے، سب سے پہلے ہر ہفتے گھر میں بھاری بھرکم دعوتوں اور قیمتی تحائف کی بارش کی، پھر ہم دونوں کے لئے تین چار ممالک کے وزٹ ویزے کا بندوبست کیا اور مہینے بھر کے لئے سیر پہ بھیج دیا۔ واپس آکے وہ میری جان کو ہی چمٹ گئی کبھی ایک لمحے کے لئے مجھے تنہا نہ چھوڑتی۔ انتہائی ضروری ذاتی کاموں کے لئے بھی میں کبھی اکیلا نہیں گیا، میرے یار دوست بہن بھائی سب ہی چھوٹ گئے۔ اسے میرے بہن بھائیوں سے ملنا پسند نہیں تھا میرا منہ سسک کے احتجاجاً بند ہوگیا۔

ہم صرف ان فیملیز سے ملتے جن سے ملنا اور روابط بڑھانا اسے پسند ہوتا۔ دل نے خواہش کرنا اور میری تال پہ دھڑکنا چھوڑ دیا تھا، ٹائی خوشبو اور قیمتی سوٹ کے پیچھے میں ایک مکمل روبوٹ بن چکا تھا ایک سال کے مختصر عرصے میں بیٹے کا باپ بن کے اپنی کئی خواہشات کو تھپک کے سلا چکا تھا۔ بیٹے کی ماں بننا بھی اس کی خوش بختی کو نگینے جڑگیا کہ اس سے پہلے میرے بڑے بھائیوں کی بیٹیاں ہی تھیں۔ وہ بیٹا ہونے کو بھی اپنی عقلمندی سے تعبیر کرتی۔

وہ جوانی تھی، بہت سی مصروفیات نے مجھے بہلا لیا تھا لیکن عمر کے اس حصے میں جب کہ میری ریٹائر منٹ چند برسوں کی دوری پہ ہے مجھے کوئی مجبوری بہلا نہیں پا رہی تھی۔ اندر لاؤنج میں خاموشی کا راج تھا، ملازمہ کب سے روتی دھوتی فارغ کر دی گئی تھی لیکن گلدان کے چھناکے سے جاگ جانے والی یہ خلش جانے کب بیٹھے گی بیٹھے گی بھی یا نہیں ؟ میں اس عمر میں اس سے چھٹکارا پانا چاہتا ہوں جیسے کسی اسیر کی رسیاں اچانک کٹ گئی ہوں، جیسے میں وینٹی لیٹرز سے روم میں شفٹ کر دیا گیا ہوں۔

ورنہ بیتے برسوں میں میں شیر سے گیڈر بن چکا تھا۔ اتفاق سے اسکے چاروں بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے ایک ایک کر کے گزر چکے ہیں۔ اب کون مجھے کسی لالی پاپ سے بہلائے گا؟ میں چونک کے ہوش میں آیا تو تین انچ کا گل میری انگلیوں میں دبا ہوا تھا جسے میں نے بے ساختہ انگوٹھے اور درمیانی انگلی کی مدد سے جھٹک دیا۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz