Mara Hua Admi (1)
مرا ہوا آدمی (1)

ملازمہ کے ہاتھ سے کرسٹل کا بھاری گلدان چھوٹا اور ایک چھناکے کی آواز سے کرچی کرچی ہوا تھا، یہ چھناکا بہت مانوس سا تھا جیسے میں اس چھناکے کا برسوں سے منتظر تھا میرے اندر کچھ کرچی کرچی ہوکے دور تک بکھر گیا ہو۔ بیوی کی دھاڑ بہت عرصے بعد مجھے بہت بھیانک معلوم ہوئی تھی۔ ملازمہ بہت دبلی پتلی سی تھی اور بید مجنوں کی طرح لرز رہی تھی شائد اس لئے، یا میرے اپنے دماغ سے کئی دنوں سے کشمکش چل رہی تھی اس لئے۔ بیوی ملازمہ کے انتخاب میں ہمیشہ سے محتاط تھی جانے اس بار کیسے چوک گئی؟
یہ گلدان بیوی نے چوتھائی صدی قبل ہنی مون کے دوران چائنہ سے اپنی سلامی کے پیسوں سے خریدا تھا تو ظاہر ہے اسکی شدید جذباتی وابستگی تھی، اس ہنی مون کو میری بڑی سالی نے سپانسر کیا تھا۔ دو تین دنوں میں ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ معمولی خد وخال والی میری بیوی اچھی خاصی خود پسند ہے۔ ہنی مون کے دوران اس نے ایک بار بھی میری نیم دلی بلکہ مردہ دلی کو محسوس نہیں کیا، لاعلمی بھی ایک نعمت ہے وہ یوں خوش ہو رہی تھی جیسے صرف اسکی شادی ہوئی ہے اور میں اس کا زرخرید ہوں حالانکہ اس شادی کے نتیجے میں میری انا بری طرح مجروح ہوئی تھی، میں تو ایک طرح دار نازک اندام بیوی کے خواب دیکھتا تھا جس کا خاندان بھر میں کوئی ثانی نہ ہو لیکن یہاں تو یہ معاملہ تھا جیسے اس کےخاندان نے مجھے خریدا ہو۔
میرا دل چاہ رہا تھا کاش میری بیوی آج اس ملازمہ کو کچھ نہ کہے اس کی جان بخش دے لیکن میں یہ بھی اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ ممکن نہیں تھا۔ مجھے اسکی چیخم دھاڑ چپ چاپ برداشت کرنے کی برسوں پرانی عادت پڑ چکی تھی، جب تک وہ اپنے اندر کی ساری تکلیف اس ملازمہ کے اعصاب پہ سوار نہیں کر دیتی تب تک اس کا خاموش ہونا مشکل تھا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں اندر سے مر چکا ہوں لیکن ڈھیٹ بنا جئے جا رہا تھا، اس وقت شدید خواہش کے باوجود میں اس کے سامنے چوں بھی نہیں کر سکتا تھا اس لئے خود کو تکلیف سے بچاتے ہوئے لان میں نکل آیا اور ہری گھاس پہ رکھی کرسیوں پہ بیٹھ کے سگریٹ سلگا لیا۔ سگریٹ کا کش اور اس میں سے نکلنے والا دھواں مجھے ماضی کی بھول بھلیوں میں لے گیا۔
میں بلند اقبال اپنے غریب ماں باپ کا سب سے چھوٹا اور چوتھا بیٹا تھا۔ والدین کو اپنے بچوں کو اعلیٰ درجوں پہ لے جانے کی شدید خواہش تھی لیکن آمدنی محدود تھی، اگرچہ ہم سرکاری سکول میں ہی پڑھے تھے بلکہ اس زمانے میں زیادہ تر سرکاری سکول ہی تھے جس کی چوّنی اٹھّنی فیس دینا بھی والدین کے لئے کار دشوار تھا یا شاید کمانے والے دو ہاتھ اور لقمے توڑنے والے بارہ ہاتھ تھے، تو کمائی کرنے والے ہاتھ اضافہ چاہتے تھے پھر بھی والدین کی یہی خواہش تھی کہ ہمیں بہت سا پڑھائیں۔
بڑے تینوں بھائی اپنی اپنی ڈگری کر کے اپنی ڈگر منتخب کر چکے تھے، میں نے جانے کیا سوچ کے مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کا اعلان کر دیا؟ ماں خوشی سے نہال ہوگئی اور اپنے کنٹھے میری تعلیم پہ بخوشی وارنے کو تیار ہوگئی۔ کنٹھے بہت قیمتی نہیں تھے لیکن میری فیسوں کا بوجھ سہار گئے۔ بیوی کے بھائی، جانے کہاں سے میری پڑھی لکھی سن گن پا کے آئے اور مجھے ابا سے اپنی بہن کے لئے مانگ لیا؟ سیدھے سادے ابا نے ڈاکٹر صاحب کی بیٹھک میں بیٹھے بیٹھے باروبار رشتہ قبول کر لیا، کہ بیٹی والے جانے کہاں کی کھے کھاتے کھاتے چل کے آئے ہیں؟ تو نامراد لوٹانا غرور کی علامت ہے اور غرور ربّ کو سخت ناپسند ہے ہم نے بلند اقبال کی شادی کرنی تو ہے ہی یہیں سہی، بلکہ اچھا ہے ہم جوتیاں چٹخانے سے بچ گئے۔
ویسے بھی ابا نے کسی بھی اہم فیصلے میں کبھی اماں کو شامل نہیں کیا تھا تو یہ فیصلہ بھی انہوں نے تنہا ہی کرنا تھا بلکہ مجھ پہ لادنا تھا۔ شادی کے پیپرز سائن کرتے مجھ پہ ایٹم بم گرا کہ چار سال بڑی بھی ہے، اس سے پہلے منگنی کی تصویریں آئیں تو میں پہلے ہی متنفر ہوکے درد دل میں مبتلا ہو چکا تھا اور اندر سے تھوڑا سا مر گیا تھا، چاہتے ہوئے بھی شادی سے مفر ممکن نہیں تھا شائد ربّ چاہتا تھا میں تھوڑا تھوڑا مرتا رہوں۔ شادی کے شروع دنوں سے لیکر دو تین سال تک بیوی مجھے سخت ناپسند رہی تھی یہ نہیں کہ دو تین سال بعد وہ مجھے پسند آگئی تھی بلکہ مجھے خوب اچھی طرح ادراک ہوگیا تھا گلے میں پڑا یہ ڈھول مجھے تمام زندگی بجانا پڑے گا تو مجبوراً میں عادی ہوگیا تھا۔
گھونگھٹ اٹھاتے ہی میرے خواب بھی اسی زور دار چھناکے سے ٹوٹے تھے۔ میرے ہاتھوں میں اندر کانپتی ملازمہ کی طرح لرزا چڑھا تھا اور میں نے گھونگھٹ چھوڑ دیا تھا بلکہ میرے ہاتھوں سے ٹشو کا دوپٹہ پھسلتا ہوا خود بخود ہی گر گیا تھا، لیکن الماری میں رکھے بڑے سے ہینڈ بیگ میں سسرال کی طرف سے ملنے والی سلامی کی موٹی سی رقم کی گرمی نے میرا لرزا کم کر کے ہمت اکٹھی کرنے میں میری مدد کی تھی کچھ یوں کہ میں نے پھر سے چھوٹا ہوا گھونگھٹ اس بار ذرا مضبوط ہاتھوں سے تھام لیا اور طوہاً کرہاً وہ سب کچھ کیا، جو سہاگ رات کا تقاضہ ہوتا ہے۔ یعنی ٹوٹے ہوئے دل سے اسکی دل کھول کے تعریف بھی کی اور آدابِ زوجیت بھی نبھائے۔
میں اچھا خاصا سخت مزاج لڑکا تھا، میری گذشتہ زندگی اکثر ضرورت کی چیزوں کی قربانی سے پروان چڑھی تھی لیکن اب میں اپنے زور بازو پہ سب کچھ حاصل کر لینا چاہتا تھا، یا یوں سمجھیئے دنیا سے اپنا حصہ چھین لینا چاہتا تھا جس میں سرِ فہرست ایک ہینڈسم جاب، خوبصورت بیوی اور شاندار گاڑی میرا خواب تھیں۔ میری خواہش تھی میری بیوی بہت خوبصورت اور نازک سی ہو بالکل کسی شیشے کے گلدان کی طرح۔ بلکہ خاندان برادری میں اس سے پہلے ایسی طرح دار بیوی کسی کی نہ ہو جسے میں اپنے دوستوں میں ایک شان سے متعارف کروا سکوں اور چوڑے شانے کر کے اعزاز کے ساتھ گھوما کروں، ان دنوں مادھوری کا جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا اور ایشوریہ رائے کامیابی اور خوبصورتی کے زینے تیزی سے طے کر رہی تھی۔

