Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Kankan Nu Paiya Wadiyan

Kankan Nu Paiya Wadiyan

کنکاں نوں پئیاں واڈایاں

رمضان المبارک کا مہینہ اپنے فیوض و برکات کے ساتھ رواں دواں ہے اور لہلہاتی گندم کی فصل بھی تیار ہے کئی جگہوں پہ کٹائی میں ہاتھ ڈال دیا گیا ہے اور دیہاتی زرعی علاقوں میں گندم کا سنہرا پھیلا ہوا ہے۔ وہی بالیاں جو کل تک اپنے جوبن اور خمار میں لہلہا رہی تھیں آج جوانی کے بوجھ سے گر رہی ہیں۔ گندم کی تیار فصل کاشتکار کے لئے سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ تیار فصل پہ یا کٹائی کے بعد بارش پڑ جائے تو فصل تباہ ہو جاتی ہے۔ اسی لئے جب تک فصل سنبھل نہ جائے کسان کی نیند اڑی رہتی ہے۔ سال بھر کی ضروریات اور تقریبات اسی نقد آور فصل سے نپٹائی جاتی ہیں۔

گندم کا سنہرا پن کسان کی آنکھوں کو مستقبل قریب کو تابناک کرتا رہتا ہے۔ سال بھر کے کئی رکے ہوئے وعدے نبھانے کا بھی یہی وقت ہوتا ہے۔ گاؤں کی زندگی کافی حد تک امدادِ باہمی کے اصولوں پہ قائم ہے۔ ربیع اور خریف کی نقد آور فصل کے وعدوں پہ بچوں کی تعلیم اور شادیوں کا سلسلہ چلتا ہے۔ ایک دوسرے کو اس وعدے پہ قرض لیا دیا جاتا ہے کہ فصل کی کٹائی پہ ادھار چکا دیا جائے گا۔ کئی بار بچوں کی سمیسٹر فیس گائے بھینس کے بچہ جننے پہ قرض کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ دھوکے یا مکرنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لئے سب کھلے دل سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ جب فصل تیار ہو تو کئی طرح کے دشمن نکل آتے ہیں۔

کسان کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ تیار فصل کو جلد از جلد ہارویسٹ کر لے تاکہ کوئی دشمنی میں کھڑی فصل کو آگ نہ لگا دے۔ ہواؤں میں تیار فصل کی بو باس رچ بس جاتی ہے۔ بوجھل ہواؤں کے حبس سے گھروں میں شدید گرمی سے چماسہ لگتا ہے ہلکے پھکے کپڑے بھی پسینے سے چپکے جاتے ہیں کسانوں کو فکر ہے کسی طرح گندم سنبھل جائے۔ کسان بھائی انتہائی نامساعد حالات اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باوجود ہماری غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ سخت کوشی کی زندگی گزارتے ہیں لیکن اناج اور پھل سبزیاں اگاتے رہتے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو اپنی زمینیں ملک ریاض کو بیچ کے قریہ قریہ بحریہ ٹاؤن اور سڑکیں بنوا دیں ۔

لیکن یہ ایسی حکومتی پالیسیوں کے آگے بھی سیسہ پلائی دیوار کی مانند مزاحم رہتے ہیں۔ اگر یہ اتنی مزاحمت نہ کریں تو عوام دانے دانے کو ترس جائیں۔ زرعی ملک ہوتے ہوئے جانے کیوں کوئی بھی حکومت زراعت کی سرپرستی کیوں نہیں کرتی جبکہ کھانا پینا انسان کی بنیادی ضروریات میں شمار ہوتا ہے خیر یہ ایک الگ قابل بحث موضوع ہےپھر کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ سوچتی ہوں اگر یہ مہنگے لوگ نہ ہوں تو زندگی کتنی مشکل ہو جائے۔ ہمارے گاؤں میں لوگ امدادِ باہمی کے تحت کٹایاں کرتے ہیں دارے میں بیٹھ کر دن تاریخ مقرر کر لئے جاتے ہیں۔ پہلی کٹائی ڈھول کی تھاپ پہ شروع کی جاتی ہے۔

آج فلاں کی فصل کی کٹائی ہے تو سارے گرائیں مل کے ادھر لگ جاتے ہیں۔ جس گھر کی فصل کی باری ہوتی ہے وہاں تمام رضاکاروں اور کاموں کے کھانے اور حلوے لکڑی کی آگ پہ پکتے ہیں۔ ایک کی فصل کٹ جائے تو دوسرے اور پھر تیسرے کی فصل میں ہاتھ ڈالا جاتا ہے۔ مرد، خواتین اور بچے مختلف کاموں میں مصروف ہوتے ہیں۔ پورےگاؤں اور ڈیرے پہ چہل پہل ہوتی ہے۔ سب ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں دھوکے یا وعدہ خلافی کا کوئی ڈر نہیں ہوتاکٹائی مکمل ہو جائے تو چھڑائی گہوائی کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ کمیوں اور کاموں کے حصہ جات کے ڈھیر الگ الگ کئے جاتے ہیں۔ اپنی ضرورت کی اور اگلے بیج کی گندم رکھ کے باقی کی منڈی میں بیچ دی جاتی ہے۔ جب تک گندم بھڑولوں میں محفوظ نہ ہوجائے کسان گھرانے سکھ کا سانس نہیں لے سکتے۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan