Dil To Bacha Hai Ji
دل تو بچہ ہے جی

رمضان کا آخری عشرہ چل رہا ہے۔ تھوڑی بہت عبادت اور رنگ برنگی فرائیڈ افطاریاں بنا بنا کےبعد طبعیت اب بوجھل پن محسوس کرنے لگی ہے۔ سال بھر سے جمع شدہ انرجی خرچ ہو چکی، اتنی کہ اس دفعہ تو فوٹو گرافی تک کو جی نہیں چاہتا۔ پچھلے برس تک ہم بڑے اہتمام سے فوٹو شوٹ کرتے رہے ہیں۔ اِدھر ٹائٹ شیڈول اور بٹے ہوئے ذہن نے کچھ بھی لکھنے سے معذرت کر لی ہے، رمضان کے اوقات کی بندش سے فرصت ملے تو قلب پہ کچھ اترے۔ مصروفیت کے ان دنوں میں کتابوں کی بہت زیادہ کلیکشن جمع ہو چکی ہے۔ کچھ دوست اپنی کتابوں پہ ریویو کے منتظر ہیں کچھ، حقیقت میں ناراض ہو چکے ہیں۔
ہماری طبع کی افتاد بھی عجیب ہے، کتاب پوری یکسوئی اور جی کی آمادگی سے پڑھتے ہیں۔ ڈائجسٹ البتہ چلتے پھرتے پڑھ لیا کرتے تھے، اب اپنی ٹائم لائین پر مختلف دوستوں کی روزمرہ والز اور کالم چلتے پھرتے پڑھ لیتے ہیں۔ لیکن کچھ منتخب پڑھنا ہو تو دل بہت لاڈ دکھاتا ہے، کہ دل پر زور نہیں خصوصاً جب کہیں سے تاکید آجائے، تو دل طرح دیئے جاتا ہے، البتہ کسی کی کھوجی ہوئی کتاب پہ دل ہمک اٹھتا ہے، یعنی کسی کتاپ پہ ریویو پڑھ لیں، تو دل بے چین ہو جاتا ہے، کہ جلدی سے یہ کتاب ہاتھ میں ہو ہم بھی اسے فتح کر کے دیکھیں، کہ جس طرح صاحبِ تبصرہ نے کتاب کو کھوجا، اور سمجھا ہم اس گہرائی تک جا سکتے ہیں یا نہیں۔
آڈیو اور ویڈیوز کے ریویوز طبعیت پہ انتہائی گراں گزرتے ہیں۔ نظریں تبصرہ گو کے گیٹ اپ کے گرد منڈلاتی رہتی ہیں، اور وہ عموماً اپنے غلط تلفظ کے ساتھ بڑے اعتماد سے غلط سلط الفاظ لڑکھاتے ہوئے کتاب سے بیزاری کا سبب بن جاتے ہیں۔ تبصرہ گو کی اردو اور لب و لہجہ شفاف ہو، متن پہ آواز کا زیر و بم اور اتار چڑھاؤ پہ قابو ہو تبھی کتاب کی طرف رجحان بنتا ہے، ورنہ ناظر کتاب اور تبصرے کو بھاڑ میں جھونک دیتا ہے۔
ہماری نظر میں جس نے اپنی کتاب کی ریڑھ لگوانی ہو، کسی سے ویڈیو بنوا لے، کتاب کے بارے میں ہم اتنے شدت پسند ہیں، کہ اسے صرف پڑھنا چاہتے ہیں سن کر ایذا میں مبتلا ہونا نہیں چاہتے۔ بہت سے دوست کتاب اور مووی کو ایک پہیلی کی طرح پڑھتے اور دیکھتے ہیں، جبکہ ہم مووی ہی وہ دیکھتے ہیں، جس پہ ریویو سن لیں اور وہ کتاب پڑھنا چاہتے ہیں، جس پہ کسی صاحبِ علم کا تبصرہ پڑھ لیں۔ رومانی ناول کبھی اچھے نہیں لگے، اخبارات میں کالمز بے حد پسند تھے اور ہیں۔ معاشرتی رویےاور انکی کھوج زیادہ پسند ہے۔
خود نوشت سے تو عشق ہے۔ کبھی کہیں سے کوئی مقفع و مسجع نثر کی کتاب ملے، تو ڈرائی فروٹس کے ساتھ اس کا مزہ دوبالا کر لینا پسند ہے۔ کبھی ایک لذت بھری خوف زدہ کر دینے والی کہانی پڑھنے کو دل چاہتا ہے، خوف سے رگوں میں لہو منجمد ہو گلے میں گھگھی بندھی ہو کتاب سے نظر اٹھانے پہ پتھرائے جانے کا خوف ہو کتاب ہاتھ سے نہیں رکھنی، ورنہ خوف کا ٹرانس ٹوٹ جائے گا۔ اپنے معاشرے اور اس کے ارد گرد پھیلی قباحتوں سے جی اوبھ جائے تو دل للچاتا ہے، کہ آج سب رنگ کتاب میں سے کسی ایک غیر ملکی ادیب کے قلم کی موشگافیاں پڑھیں۔
مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے کے سبک پروں پہ تیرتی کہانی پکڑیں، جہاں سب کچھ ترقی یافتہ ہوتا ہے، لیکن پھر بھی کہانیاں اور جرائم جنم لیتے رہتے ہیں، چونکہ منظر نامے میں چل رہی کہانی سے دل کو فرار چاہیے ہوتا ہے، تو کتاب کے ذریعے یہاں سے اپنا فرار ممکن بنا لیتے ہیں۔ چشم زدن میں کتاب کی رتھ پہ سوار ہوکے منظر نامے سے فرار ہو جاتے ہیں، لیکن جب ایک اجنبی ماحول میں خود کو فٹ نہ کر پائیں، یا کسی بچے کی ضرورت حقیقی دنیا میں لا پٹخے تو اپنے معاشرے میں جابجا بکھری تلخ کہانیاں اور جانکاری بھی خوب پناہ دیتی ہیں۔
کوئی کتاب چائے کے کپ کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ کے ساتھ مزہ دیتی ہے، تو کوئی کتاب نمک مرچ ملی املی آلو بخارے کے ساتھ، یکساں برستی بارش میں بھیگتے من، کاجو اور آتشدان کے ساتھ نثری شاعری کا مزہ سہہ آتشہ ہو جاتا تو کبھی شاعری چاکلیٹ کے ساتھ مزہ دیتی ہے، اور کبھی دہکتے گلابوں کے بیچ، سردی کے موسم میں کمبل، کتاب، کافی یا پھر ٹیرس کی کڑکتی دھوپ ہو اور گرمی میں سرسراتے پردوں میں باہر آم کے پیڑ پہ کوئل کی کوک کے ساتھ ایک من پسند اور اچھی کتاب پڑھنے کا عمل رومانس میں مبتلا کر دیتا ہے۔
اس رومانس پہ تبصرہ کرنا کتنا روح پرور اور خوش کن تجربہ ہوتا ہے روح تک سرشار ہو جاتی ہے۔ صدف مرزا کی " برگد" ہم نے فقط ٹشو پیپر کے ساتھ پڑھی تھی دل ان دنوں اپنی کسی تکلیف کی وجہ سے جانکنی کے عالم میں تھا، تو کسی بالا نوش کی طرح شراب، شرابوں میں ملا دیں کے مصداق جی چاہ رہا تھا، کہ اپنے غم کو دوسروں کے غم میں مدغم کر دیں۔ اور پھر واقعی ایسا ہوا تھا کہ صدف کا غم دیکھ کر اور ہنستی مسکراتی زندگی کا چہرہ دیکھ کر اپنے غم کا مداوہ ہوگیا۔
کوئی کوئی کتاب ایسی ہوتی ہے، کہ جی چاہتا ہے کہ اس پہ باجماعت بحث ہو۔ کتاب جس طرح ہم پہ کھلی ہے، کسی دوسرے صاحبِ محرم کے ساتھ اس پہ تبصرہ کیا جائے۔ اس کے حرف حرف کو کھوجا جائے۔ بیس پچاس لوگ ایسے مل جائیں جو اس کتاب کی سطر سطر کو زیر بحث لائیں۔ اور کتاب کی پرتیں ہم پہ کھلتی جائیں۔ شائد کسی گروپ کی بدولت ایسا ممکن ہو کہ سب ممبران ایک کتاب پڑھیں، اور پھر گروپ میں اس پہ تبصرہ کیا کریں، اسکے بہت سے فوائد ہوں گے۔
ایک تو کتاب کا متن اور غرض و غایت سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ پھر جہاں سے کتاب گنجلک ہوگی، ایک دوسرے کی مہربانی سے کتاب ہم پہ کھل جائے گی، تیسرا اچھی کتاب پڑھنے اور خریدنے کی پہچان، شعور و شوق پیدا ہوگا۔ ہمیں کسی کے تبصرے اور جامع مباحث سے کتاب کے مندرجات تک آگاہی مل جائے گی، اور ہم اپنی مرضی کی کتاب بلاجھجھک خرید لیں گے، اس طرح اچھی کتاب خریدنے اور پڑھنے کے شوق کو مہمیز ملے گی، ہمارے روپے ضائع نہیں جائیں گے۔
کتنا اچھا لگتا ہے، جب کوئی کہتا ہے، کہ یہ کتاب اس نے بھی پڑھ رکھی ہے۔ مجھے ایسے دوست سے بے حد اپنائیت اور ایک قلبی سا تعلق محسوس ہونے لگتا ہے، پھر میرا دل کرتا ہے، کہ اس سے پوچھوں، اس پہ کتاب کہاں تک کھلی کس جملے کس پیرا گراف اور کس واقعے سے وہ زیادہ متاثر ہوا۔ دوستو کتاب قطعاً مہنگی نہیں ہے، یہ نجانے کس کا پرایپگنڈہ ہے، کہ کتاب مہنگی ہے، کتاب تو ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ بہترین کتاب کی قیمت بھی ہزار پانچسو سے زیادہ نہیں ہوتی علم اور شخصیت کے نکھار کے لئے یہ بھی کوئی قیمت ہے بھلا؟

