Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zaara Mazhar
  4. Darzi Se Aaj Meri Jang Ho Gayi (1)

Darzi Se Aaj Meri Jang Ho Gayi (1)

درزی سے آ ج میری جنگ ہوگئی(1)

بازار کے عین بیچوں بیچ ٹیلر ماسٹر عبدالغفور کی دکان ہے۔ بہت موقع کی جگہ پر ہے اور گاہک بھی ٹوٹے پڑتے ہیں۔ مگر اصل وجہ تو ماسٹر صاحب کی باریک بینی اور ہاتھ کی صفائی ہے۔ ماسٹر صاحب دھڑا دھڑ کپڑوں کی کٹائی میں مصروف ہیں۔ شیشے کے دروازے سے اندر باہر سب نظر آ رہا ہے۔ اچھی کھلی دکان ہے، مگر اس وقت کپڑوں کے ڈھیر سے اٹی ہونے کی وجہ سے تنگی کا تاثر چھوڑ رہی ہے۔ دوسرا روزہ ہے۔ اندر دو قدمچے اتر کر چار پانچ کاریگر مشینوں کے شور میں بری طرح جتے ہوئے ہیں۔ پینتالیس منٹ رہ گئے ہیں لائیٹ جانے میں، سو زیادہ کام نمٹانے کے چکر میں مشینوں پہ دھڑا دھڑ ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔

مسز چوہان ماتھے پر گاگلز ٹکائے دروازہ کھول کر داخل ہوئیں، تو کاریگروں کے کام میں لمحے بھر کو تعطل آ یا، پھر سے کھٹا کھٹ شروع ہو گئی۔ ماسٹر صاحب یہ پانچ جوڑے رکھئے، دسویں روزے تک مل جائیں گے نا؟ غفور نے دکان کے بورڈ پر اتنا موٹا موٹا لکھوایا ہوا تو تھا، کہ پہلے روزے سے کپڑے لینے کی معذرت، مگر بی بی نے کہاں ماننا تھا۔ دکان تو پہلے ہی بزازکی گانٹھ بنی جا رہی ہے، ذرا تذبذب ہوا ماسٹر صاحب کو، مگر کئی طرح کا لحاظ مار گیا بس ہلکی سی جی ہی نکلی۔ میری افطار پارٹیاں شروع ہو جائیں گی۔ جی، ماسٹر صاحب نے کپڑے سمیٹنے کو چھوٹے کی طرف کھسکا کر ڈیزائن سمجھنے کےلئے ٹیبل پہ جگہ بنائی، اور گلابی رنگ کا نازک سا جوڑا پھیلا لیا۔

اسکا نیک، بوٹ شیپ، بازؤں پہ ہلکی سی پائپن۔ وہ بولنا شروع ہو گئیں۔ بلو والی پہ بین کے ساتھ فل ڈوری پائپن، لیمن والے کا گول دامن، سی گرین پہ یہ، اور ٹی پنک پہ یوں۔ محترمہ جاتے جاتے دوبارہ یاد دہانی کروا رہی تھیں۔ ماسٹر عبدالغفور نے موٹی عینک کے پیچھے سے ذرا کوفت سے دیکھا۔ دماغ چاٹ گئیں محترمہ۔ ایک ٹراؤزر سل جاتا یا چار پانچ قمیضوں کی کٹائی ہو جاتی۔ اللہ اللہ کر کے رخصت ہوئیں۔ ماسٹر صاحب نے کتر بیونت کے لیئے قینچی پکڑی، کپڑا پھیلایا ہی تھا کہ خوش باش مسز غلام علی داخل ہوئیں۔ دس جوڑے انکے ہمراہ تھے۔ کبھی اجرت پہ چوں نہیں کرتی تھیں، نہ ہی دیر سویر کا رولا ڈالتی تھیں۔ اور کسی اور ٹیلر کے پاس جانے کا تو سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔

ماسٹر صاحب نے خندہ پیشانی سے پھیلایا ہوا کپڑا سمیٹ لیا۔ گھنٹہ ڈیڑھ اب پار ہو جانا تھا، جوڑے ایک ایک کر کے نکلنے لگے۔ زیادہ تر ڈیزائن ہوئے وے تھے، بس کٹائی اور سلائی سے ساری تراش خراش واضح ہو جانی تھی۔ مگر انکی مین میخ سوا گھنٹہ کھا گئی۔ انکے نکلتے ہی لائٹ گل ہو گئی، پوری گلی میں جنریٹر اور یو پی ایس روشن ہو گئے۔ ماسٹر صاحب کا یو پی ایس مرمت طلب تھا سو فارغ بیٹھنے کے سوا چارہ نہیں تھا۔ خیر شکر ہے 20 منٹ بعد ہی لائٹ کی واپسی ہو گئی۔ دو قمیضوں کی کٹائی بھی نہ ہو پائی تھی، کہ مسز خان تپتے منہ کے ساتھ جِھلائی بوکھلائی داخل ہوئیں۔ تین جوڑے ہیں بس۔ کپڑوں پر اچھی خاصی ڈیزائننگ تھی مگر لیسوں کا پلندہ پھر بھی ساتھ تھا۔

میرون والی قمیض پہ سائیڈ پہ ہلکی چنٹ کے ساتھ یہ لیس دیجئے گا، انکی خرقے لگوانے کی عادت، غفور کے دماغ نے بے بسی سے پیچ کھایا۔ براؤن کو کشمیری امپریشن کا لُک دینا ہے، سائیڈ پر پاکٹس۔ اس گرین والی پہ شو پٹی لگانی ہے اور فل ڈوری پائپن۔ بڑی نزاکت سے ڈیزائن سمجھاتے سمجھاتے مسز خان ایک دم تپ کر بولیں، ماسٹر صاحب لکھ لیجئے ناں کچھ کا کچھ کر دیتے ہیں۔ نہیں بیگم صاحبہ چٹ لگا دی ہے، ساتھ ڈیزائن کی۔ یہ تو ہر دفعہ کرتے ہیں، مسز خان نے نخوت سے ناک سکیڑی، آ دھا گھنٹہ اور گل ہو گیا۔

کاریگر کپڑوں کی کٹائی کے انتظار میں الگ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے تھے، مکمل ہو تو سلائی شروع کی جائے۔ یوں تو ماسٹر صاحب رات کو کٹائی کر رکھتے تھے، مگر کل رات لوڈ کی وجہ سے ٹرانسفارمر کی ڈی اڑ گئی تھی، اور یو پی ایس بھی ابھی واپس نہیں آ یا تھا سو کام کافی پیچھے رہ گیا تھا۔ اب یہ چار سیگریٹ پینٹس ایک ساتھ رکھ کر قینچی کے نیچے سے گزارتا ہوں، یہ سب تو کام سے لگیں۔ تب ہی بیگم کا فون بجنے لگا۔ اس نے پہلو تہی کرنی چاہی، مگر رات اماں جی کی طبیعت کافی خراب رہی تھی، ایک دم یاد آ یا۔ خیر ہو سہی۔ اور واقعی ماں جی کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب تھی۔ دوپہر میں بیوی لے گئی تھی نکڑ والے ڈاکٹر کے پاس، سب ٹھیک ہی تھا، اب اچانک پھر طبیعت بگڑ گئی تھی۔

اور اسکے ہاتھ پاؤں پھولے جا رہے تھے۔ نندیں پہلے ہی کہتی رہتی تھیں، تم ہماری اماں کا خیال نہیں رکھتی ہو، سو وہ کافی ڈری سہمی رہتی۔ اسے جلد آ نے کی تسلی دے کر جلدی جلدی کٹائی کی، کاریگروں کے سامنے ڈیزائن رکھے، اور موٹر سائیکل کو ریس دی۔ بھاگم بھاگ اماں جی کو ہسپتال لے گیا۔ ڈاکٹر صاحب کی بیگم عبدالغفور سے ہی کپڑے سلواتی تھیں، کافی مہربان بھی تھیں، سو انکےحوالے سے باری جلدی آ گئی۔ دوسرے مریض خوب بھنائے مگر اس نے دھیان نہیں دیا، اور گھنٹے بھر بعد دوبارہ دکان پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ شام بھی سر پہ تھی، اس نے سوچا آ ج کے کپڑے آ ج ہی نمٹا لیئے جائیں، رات کو جتنی دیر تک لائٹ رہے گی، کاریگروں کے ساتھ کافی کام کھینچ لوں گا۔ پھر سحری کر کے سب کو بھیج دوں گا۔

اوپر والی منزل پر بیڈ تھا، خود وہیں سونے کا ارادہ تھا، تاکہ دس بجے تک دکان کھل سکے۔ ورنہ جانے آ نے میں ٹائم خرچ ہو جاتا۔ کاریگر تو آ رام سے آ ئیں گے بارہ بجے کے بعد۔ دھیان اماں کی طبیعت کی طرف بھی تھا، فون کر کے حال پوچھ لیا۔ بیوی نے بتایا کچھ بہتر ہیں، آ نکھ لگ گئی ہے۔ چلو اطمینان ہوا۔ اب وہ آ رام سے شٹر نیچے کئے (جو نشانی تھا کہ دکان بند ہے اور کسی ایمر جنسی کے لیئے بند بھی نہیں) کپڑوں کی کٹائی میں مصروف ہو گیا۔ ہیں؟ مسز چوہان کی گلابی قمیض کے ڈیزائن والی پرچی کدھر گئی، ایک ایک کر کے سارے کپڑے آ گے پیچھے کر لیئے، اف وہ تو دوپٹے کے پلو میں باندھ دی تھی۔ شکر ہے مل گئی۔

ایک ایک کر کے ساری کٹائی مکمل ہو گئی۔ یکسوئی تھی تو کام بھی نمٹ گیا۔ کاریگروں کے تھیلے الگ الگ بنائے، شلواریں اور کیپری ایک بیوہ خاتون لے جاتی تھی سینے کو، اسکے لئیے الگ کئیے، کچھ مشکل کام اپنے ذمہ رکھے۔ پیکو والے دوپٹے الگ، بارڈر والے الگ، بےبی پیکو والے الگ اور پٹی والے الگ کئے چھوٹے کو دینے واسطے۔ اوپر کاریگر فل والیم میں ٹوٹی فروٹی سن رہے تھے، اور آپس میں فحش مذاق کے ساتھ ساتھ دھڑا دھڑ مشینیں بھی چلا رہے تھے۔ کافی تیزی سے کام سِمٹتا جا رہا تھا۔ اگلے آ نے والے کچھ دِنوں میں مِلی جُلی روٹین رہی، لیڈیز آ تی رہیں، اپنے ساتھ ساتھ ماسٹر عبدالغفور کا بھی بہت ٹائم کھوٹا کیا، کسی کو واپس کیا، کسی سے معذرت کی اور کچھ پوری ڈھٹائی کے ساتھ دے کر ہی گئیں۔

اب چار پیسے عید پہ اکٹھے ہاتھ آ ئیں گے، وہ کام کے ساتھ ساتھ آ مدن کا حساب بھی ذہن میں رکھے ہوئے تھا۔ ایک اے سی اور لگوا لوں گا۔ بجلی کا کنکشن دونوں سائیڈ کے میٹر پہ کروا لوں گا۔ ایک جنریٹر لے ہی لوں گا بھلے شور کرتا ہے، کام تو چلتا رہتا ہے ناں۔ کام بہت تیزی سے ہو رہا تھا، مگر جتنا ہوجاتا دُگنا اور آ جاتا۔ پتہ نہیں یہ خواتین رمضان سے پہلے کپڑے کیوں نہیں خرید لیتیں، بیگم ثاقب کا بڑا سا شاپر دیکھتے ہوئے ماسٹر عبدالغفور نے سوچا۔ یا خدایا یہ خواتین ایک دن میں کتنے جوڑے کپڑے پہن لیں گی۔ مگر بس، اس سے آ گے مصروفیت نے سوچنے نہیں دیا۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz