Aurat Ka Muashi Istehsal
عورت کا معاشی استحصال

آج معاشرے کے ایک بھیانک پہلو پر سے نقاب کشائی کی جرات کر رہی ہوں۔ چند روز قبل ہمارے گروپ میں ایک پوسٹ لگی، کہ خاتون جاب کرتی ہیں، اور ان کا شوہر انکی تمام کمائی ہتھیا لینا چاہتا ہے۔ وہ خاتون تمام تنخواہ دینا نہیں چاہتیں، سو انکی زندگی دن بدن مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ شوہر نے یہاں تک دھمکی دے دی، کہ اگر تنخواہ مجھے نہیں دو گی تو گھر بٹھا لوں گا۔ جبکہ وہ بیوی کی نان نفقہ کی ذمہ داری پہلے ہی پوری نہیں کر رہا۔ خاتون جاب چھوڑنا نہیں چاہتیں وہ کیا کریں؟
جو لوگ سرکاری جاب کرتے ہیں، انہیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے، کہ ایک بار جاب ہاتھ سے نکل جائے، تو کتنی خواری ہوتی ہے، یا جابز کی کنڈیشنز کیسی ہوتی ہیں، اور وہاں آپ کو چھ سے آٹھ گھنٹوں کے دوران کتنا کام کرنا ہوتا ہے۔ ایک بار اپنی ایجوکیشن ہیڈ کے آفس میں گھنٹہ بیٹھنے کا اتفاق ہوا تو اندازہ ہوا، کہ ایک سیکنڈ بھی فرصت کا میسر نہیں ہوتا۔ انکے ہاتھ اور زبان مسلسل مصروف رہتے ہیں۔ (اس موضوع پہ جلد ہی لکھوں گی) آپ ابتدائی چند سالوں میں جاب چھوڑ دیں تو آپکے ہاتھ کچھ نہیں آتا وغیرہ وغیرہ۔
بہنوں نے اس کا درد اپنے دل پہ محسوس کیا، اور کئی طرح کے مشورے دئیے۔ اچھا ان کمنٹس اور مشوروں سے معلوم ہوا، کہ یہ معاملہ کس قدر گھمبھیر اور ییچیدہ ہے۔ قصداً اس پہ بات نہیں کی جاتی، کہ عورت کو اپنے جائز حقوق بارے آگاہی نہ مل جائے، بہت سے پہلوؤں پہ بات ہوئی لیکن حل نہیں نکلا۔ تمام بحث اسی اندھی گلی میں گول گول گھوم کے وہیں کھڑی ہے۔ مجھے دو تین خواتین نے کہا:کہ اس پہ مزید بحث ہونی چاہیے، تاکہ عورت کا یہ استحصال بند ہو۔ یا کم سے کم اس ظلم پہ بات شروع ہو، آواز اٹھائی جائے، تاکہ لوگوں کو آگاہی ملے، کہ اپنی محنت پہ عورت کا اپنا حق ہے۔
نان نفقہ کی ذمہ داری شوہر کی ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے، کہ عورت شروع سے ہی اپنی تنخواہ اپنے گھر والوں پہ خرچ کرتی آئی ہے، قبر میں ساتھ لے کر نہیں اترتی۔ بعد از مرگ اسکی پینشن کا حقدار بھی عموماً اس کا شوہر ہی ہوتا ہے۔ میں نے چونکہ خود کبھی جاب نہیں کی تھی، تو مجھے اس درد کا اندازہ بھی نہیں ہے، اور نہ ہی کبھی اس طرف دھیان گیا۔ تین دن پہلے وہ پوسٹ لگی تھی، تین دن سے اس جانب توجہ کی، تو اپنے قریبی حلقے سے ہی کئی خواتین کے بھرم بھرے چہرے نظروں میں گھومنے لگے، جو مشقت کی یہ چکی جبراً پیس رہی ہیں، لیکن اُف نہیں کر سکتیں کہ بھرم ٹوٹ جائے گا۔
مجھے اپنی اُس گرلز کالج کی پرنسپل عزیزہ کا چہرہ یاد آگیا، جو کئی بار کہہ چکی ہیں، کہ ہم سے زیادہ مزے تو آپ کے ہیں، آپ ہم سے زیادہ اچھا لباس پہنتی ہیں، اپنی اور بچوں کی زندگی کو اِنجوائے کرتی ہیں، اور گرم سرد موسم کی شدت میں گھر میں رہ کر بھی شور ڈالتی ہیں۔ اپنی ایک استاد کا چہرہ نظروں میں گھومنے لگا، جنہوں نے تمام زندگی سخت جدو جہد میں گزاری۔ پہلے بہن بھائیوں کو سنبھالا پھر نکھٹو لا ابالی شوقین مزاج شوہر کے اللے تللوں کو۔ پھر اسکی پانچ اولادوں کو پال پوس کر پڑھایا، لکھایا۔ ہمیشہ سستے کپڑے اور سکول کے سامنے لگنے والے لنڈے کے جوتے، سوئٹر پہنتی رہیں کہ چار پیسے بچوں کی ضروریات یا فیسوں کے لئے بچ جائیں۔
ریٹائرمنٹ کے اگلے سال کینسر میں مبتلا رہ کے وفات پاگئیں۔ ذرا سا بھی اولاد کا یا گھر کا سکھ نہیں دیکھ سکیں۔ وہ سہیلی یاد آئی جو پورا مہینہ جبری مشقت کی یہ چکی پیس کر، ایک ہینڈسم اماؤنٹ لاکے ساس کے ہاتھ میں رکھ دیتی ہے، اور وہ اس تنخواہ کو بڑے انصاف سے تمام گھر والوں پہ یکساں خرچ کرتی ہیں۔ گھر میں رہنے والی دیورانی، جیٹھانی کی طرح دو دو جوڑے سردی، گرمی کے پاتی ہیں۔ صبح صبح تیار ہوکے گھر کی ذمہ داریوں سے فرار کا طعنہ سنتی ہیں، اور صبح کی چکی پیس کر شام کے کاموں کی ذمہ داری نبھاتی ہیں۔ بچے ماں کی غیر موجودگی میں رُل کے پلے۔
ان ڈاکٹر دوست کا ٹینشن کی پریشانی سے چمکتا چہرہ نظروں میں گھوم گیا، جن کا شوہر ہینڈسم سیلری لیتا ہے، لیکن بیوی بچوں کی ذمہ داری میں ایک روپے کا حصہ نہیں ڈالتا، جو ڈالتا ہے وہ طنزیہ نظر ہوتی ہے۔ بیوی خود ہی موسموں کی شدت سے لڑتی جھگڑتی دور دراز نوکری کرنے جاتی ہے، اور چھوٹے بچوں کو پک اینڈ ڈراپ دیتی ہے۔ گھر آکے تمام گھر داری دیکھتی ہے، اور رشتہ داریاں نبھاتی ہے، کیونکہ اسے نوکری کی آزادی اور عیاشی میسر ہے۔ یہ دو تین مثالیں وضاحت کے لئے پیش کی ہیں، تاکہ موضوع کو سمجھنے میں آسانی ہو اور موضوع چھیڑا جا سکے، ورنہ بہت سی متاثرہ خواتین یاد آرہی ہیں۔
خواتین نے بتایا کہ، وہ جاب اس لیئے نہیں چھوڑنا چاہتیں کہ جاب کا آسرہ اور بھرم ہے، ورنہ میکے اور سسرال میں بے سائبان ہو جائیں گی۔ ایک حاجی بابا جی اپنے ایف اے پاس، بی اے فیل اور دو تین جعلی ڈگریاں خریدے پرائمری سکول ٹیچر، بیٹے کے لئے دھوکے سے ایک ایسی لڑکی بیاہ لائے جولیکچرر تھی۔ بابا جی کے بقول بیٹے کی معمولی سی تنخواہ میں گھر نہیں چلے گا، دونوں مل کے چلائیں گے۔ اس لیکچرر کے خواب جس بُری طرح سے ٹوٹے تھے، میرا کندھا آج بھی گیلا ہے۔ یہ ان خواتین کے مسائل ہیں، جو انیسویں اور بیسویں گریڈ میں ہیں، نیچے اُترتے جائیں تو غمگین ہے۔
خواتین پہ ہر روز کردار کشی، روز تیار ہونے اور یاروں سے ملنے کے بہانے تک کے الزامات سننے میں آتے ہیں۔ ہم نے وہاں گروپ میں، خواتین نے ہی بحث کی، جو بحث برائے بحث ہی رہی۔ جب تک اس میں مدعیہ کے ساتھ مدعا علیہ شامل نہیں ہوں گے، جنہوں نے عورت کو اس جبری مشقت پہ لگا رکھا ہے، اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھے گا۔ آئیے دیکھتے ہیں، ہمارے پسرانِ ملت اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ جو کمانے والی عورت کو اپنی ہی کمائی سے چپکے سے کیسے محروم کر دیتے ہیں۔

