Aasman Pe Badlon Se Khelna
آسمان پہ بادلوں سے کھیلنا

پردیس سمندر پار کا ہو، یا دیس میں کوئی چھوٹا سا پردیس۔ پردیس ہی ہوتا ہے۔ پردیسیوں کی تمام خوشیاں غمیاں آنول نال کی طرح دیس سے جڑی ہوتی ہیں، اور پردیسی نوزائیدہ کی طرح روتے رہتے ہیں۔ وطنوں کے لمبے سفر قسمت کر دئیے جاتے ہیں ہک ہااااا۔ آ ج پھر ایک لمبا سفر درپیش تھا۔ ہمارے سفر عموما جی روڈز، ہائے ویز اور موٹر ویز پر ہوتے ہیں۔ طوالت اور بوریت سے بچنے کے لیئے ہم ایسے سفر کے دوران دو سفر ایک ساتھ اختیار کر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں ڈائری اور قلم ہوتا ہے، اپنی یاداشت میں ترتیب سے رکھنے کے لئے مختصر نوٹس لیتے رہتے ہیں، تاکہ ہماری سوچ کا کوئی جز قضا نہ ہو سکے۔
اندورنِ شہر کی رش زدہ سڑکوں میں سے راستہ کاڑٹتے، آج جی ٹی روڈ ہمارا انتخاب و ہم رکاب تھی۔ اندرونِ شہر کی رش زدہ سڑکوں سے رینگتے ہوئے، نکلتے ہی ایک طمانیت سی ہو جاتی ہے جیسے ایک پرندہ کھلے آسمان پہ اڑان بھرنے سے پہلے اپنے پھپھیڑوں میں آکسیجن کا ذخیرہ کر لے۔ اب ہماری نظریں موٹر سے زیادہ سبک رفتاری سے راستوں کا تعاقب کرتی ہیں، اسی لیئے کبھی کبھی دوگنی تھکن سوار ہو جاتی ہے۔ جہاں زمین و آسمان کے قلابے ملتے ہیں، وہاں سے ہماری نظر نے زقند بھری اور آسمان کی گگر پہ ٹک گئی۔ اگر طویل درختوں، بادلوں بھرے گیلے آسمان پہ ماضی کا کوئی سنہرا دن یاداشت کی پٹاری سے چھلانگ مار کے آسمان پہ ٹپے کھانے لگے، تو ہماری آنکھیں بھی اس منظر سے کھیلنا شروع کر دیتی ہیں۔
ہم اسکے تعاقب میں عصر کا ہرن دوڑا دیتے ہیں۔ سفر کی وقتی کلفت دور بھاگ جاتی ہے۔ ہموار شاہراہ پہ دائیں بائیں راستوں پہ نظر جمائے، کئی کہانیاں گھڑنا یا ماضی کی ٹوٹی پھوٹی متروک شاہراہوں پر سفر ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے، اس فارغ مصروفیت میں سے ہم کئی طرح کی کہانیاں نکال لیتے ہیں، تخیل کا گھوڑا برّاق بن جاتا ہے اور طرح طرح کے افسانے کرداروں سمیت وارد ہونے لگتے ہیں، ہم نے کئی افسانوں کے تانے بانے ایسے ہی بنے ہیں، شاہراہوں اور بادلوں کے ساتھ کھیلنا بہت دلچسپ اور انوکھا کام ہے، رواں سڑک پہ چلنے والے کئی منظر ہمیں ماضی میں لے جاتے ہیں۔ درپیش سفر کی بوریت دور کرنے کے لئے ہماری نظر نے دائیں بائیں کے مناظر کی تحریک سے ذہن میں چلتی فلم کو آسمان کے وسیع کینوس پر فلمانا شروع کر دیا۔
ہم نے بادلوں کے ساتھ آ نکھ مچولی شروع کر دی، تصور میں ایک ہرن بنایا اور نظریں آ سمان پہ جما دیں دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف ہرن بن گیا، بلکہ چلتی گاڑی کے ساتھ چوکڑیاں بھی بھرنے لگا۔ ہرن کے تعاقب میں بھاگتے بھاگتے ہم اپنے بچپن کی الف لیلہ میں جا داخل ہوئے۔ وقت کی طناب پہ چند لمحے رک کے کنوتیاں کسیں، اور فیصلہ کیا کہ آج ہمیں ذرا زیادہ پیچھے جانا ہے، جہاں ہمارا بچپن پڑا تھا۔ ارد گرد کے کئی غیر اہم واقعات کی چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں پھلانگ کے ہم نے ایک زمانہ منتخب کیا۔ ہم نے میٹرک کے پیپرز دیئے تھے۔ لگتا پورے گھر کو عذاب پڑ گیا ہے، ہر کوئی لٹھ لے کر پیچھے پڑا رہتا۔ والدہ محترمہ کو فکر لگی رہتی کہ کسی طرح ان دو ڈھائی ماہ کی چھٹیوں میں دنیا جہان کی سلیقہ شعاری اور گھر داری گھول کر پلا دیں۔
ہم بے نتھے بیل بنے جان چھڑانے کی کوشش کرتے۔ نیلی آ پا کی پوری کوشش کہ اسے ہانڈی روٹی بنانی آ جائے، تاکہ انکی جان چھوٹ جائےیا کم از کم تھوڑا بوجھ ہی ہلکا ہو جائے۔ ہر بھائی کو اپنے کام ہم سے کروانے ہوتے۔ جوتے چمکانا، کپڑے پریس کرنا، کتابوں پہ جلد باندھنا، لئی پکانا، کتابوں پہ ابری چپکانا ابا گھر میں موجود ہوں، تو ہر آدھے گھنٹے بعد دو چار کپ چائے۔ ہمیں جو بھی کام دیا جاتا ہم منٹوں میں نمٹا کر اپنے ریک کے سامنے جا بیٹھتے، جس میں ہمارا قیمتی سرمایہ ہمارے ڈائجسٹ اور کتابیں سجی تھیں۔

