Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Yaseen Malik
  4. Sahib Ji

Sahib Ji

صاحب جی

آج وہ کچھ زیادہ ہی دیر سے آیا دفتر میں، وہ ایک ایسے گاڑی میں آیا جس کی قیمت نوے لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ تک تھی لیکن یہ گاڑی اس کو حکومت اسلامی پاکستان نے دی تھی اور اس میں روزانہ تیل بھی حکومت ہی بھرتی رہی تاکہ وہ ملک و قوم اور سرکار کی خدمت کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کرے۔

کل اس کے دفتر کا ایک اے سی بھی خراب ہو چکا تھا جس کی ملازموں نے راتو رات مرمت کی تھی۔ اس اے سی کو کسی لیٹیسٹ ماڈل اے سی سے ریپلیس کرنے پہ اتفاق ہوا تھا لیکن مستری نے انہیں کہا تھا کہ ابھی یہ اے سی اتنا پرانا نہیں ہوا اور یہ کام دے سکتا ہے۔

بہرحال وہ جوں ہی گاڑی سے اترا اس کے گارڈز اس سے پہلے اتر چکے تھے اور ان میں سے ایک نے فوراً اس کی گاڑی کا دروازہ کھولا۔ وہ ادھر ادھر دیکھے بنا آفس میں داخل ہوا جہاں پر اس کے خدمت پر معمور ملازموں نے انہیں سلیوٹ کیا۔ اس نے کوئی توجہ دیئے بغیر موونگ چیئر پر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ اس کا یہ رویہ ان کے ملازموں کو یہ خبر دے رہا تھا کہ صاحب آج موڈ میں نہیں ہے۔

اس لئے انہوں نے نمٹانے کے لئے آج زیادہ ضروری فائلوں ہی کو صاحب کے آگے رکھ دیا اور جو حد سے زیادہ ضروری نہیں تھیں اس کو کسی اور وقت پہ چھوڑ دیا۔ مثلاً شمائل پُل (فرضی نام) جو دو شہروں کے بیچ مین روڈ پر تھا اور جو ندی میں زیادہ پانی کی وجہ سے گِر چکا تھا جس پر کام جاری تھا لیکن ابھی بیچ کام میں فنڈ ختم ہو چکا تھا اور اب مزید فنڈ کی منظوری کی فائل اب صاحب کی نگاہِ کرم کی منتظر تھی۔

لیکن چونکہ یہ زیادہ ضروری نہیں تھا کیونکہ صاحب کے ملازمین کے بقول ان دو شہروں کے بوڑھے اور جوان مرد، عورتیں، سکول کے طالب علم اور محنت مزدوری کرنے والے وغیرہ کیلئے ندی کو پیدل ہی پار کرنا ممکن تھا سو یہ اتنا بھی ضروری نہیں تھا کیونکہ اس کے بغیر لوگوں کا کام چل سکتا تھا۔ دوسری فائل مزدوروں نے پرسوں جو مزدوروں کی اجرت بڑھانے کیلئے اختجاج کیا تھا اور جس پر کمشنر نے انہیں یہ عندیا دے کر اختجاج ختم کرایا تھا کہ ان کے مطالبے پر جلد از جلد نظر ثانی ہو گی۔

اس فائل کو بھی ملازموں کی طرف سے سائیڈ پہ رکھ دیا گیا۔ اس طرح اور بھی بے شمار فائلیں پڑی تھیں جو کئی مہینوں بلکہ کچھ تو کئی سالوں سے یوں ہی پڑی صاحب کی نگاہ کرم کی منتظر تھیں لیکن صاحب اس کو کسی وجہ سے ٹال دیتے۔ ضروری فائلوں میں سے جو ملازموں نے صاحب کے سامنے رکھ دی تھیں، پہلی فائل ضلعے میں پیٹرول اور کچھ سبزیوں کی نرخیں بڑھانے سے متعلق تھی، جو دفتر خزانہ کی طرف سے کل صاحب کے دفتر میں آئیں تھی تاکہ وہ اس پر سائن کر کے ضلعے میں اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

دوسری فائل بے نام کارپوریشن لمیٹڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی طرف سے تھی جس میں ٹیکسز اور آڈٹ کے معاملات میں نرمی برتنے کی التجا شامل تھی اور جس میں تین لاکھ پندرہ ہزار کا ایک چیک بھی پڑا تھا اسے دیکھ کر صاحب کا موڈ کچھ آن سا ہوا اور فوراً فائل پر سائن کر ڈالا۔ اس طرح کی اور بھی کچھ ضروری فائلیں تھیں جو صاحب نے نمٹائی اور کچھ اور بھی کام تھا جو نمٹا دیا گیا۔

اور اب صاحب کو ایک ٹیکسٹ میسج آیا تھا ڈیڈ پلز آئیے نہ یہاں سب آپ کے منتظر ہیں۔ یہ صاحب کی بیٹی کا میسج تھا جس کے بیٹے کی آج سالگرہ تھی اور اس تقریب میں شرکت کیلئے ڈیڈ کو بھی مدعو کیا گیا تھا سو آج صاحب نے جلد ہی دفتر سے چھٹی لی اور چلے گئے۔ چلتے ہوئے اس نے پانچ ہزار کا نوٹ ملازموں کو دے دیا کہ اس کو آپس میں تقسیم کیا جائے۔ بائیں طرف کھڑے ملازم نے جکھ کر نوٹ کو صاحب سے لے لیا اور صاحب باہر چلے گئے۔

ایک سیکیورٹی گارڈ والے نے پھرتی سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور صاحب اندر بیٹھ گئے اور اس کے بعد دروازہ کھولنے اور دیگر سیکیورٹی گارڈز بھی پیچھے بیٹھ گئے جو صاحب کی حفاظت پر معمور تھے۔ آگے چلتے ہوئے راستے میں سڑک پر لوگوں کا ایک جمِ غفیر نظر آیا جسے دیکھ کر صاحب کے سیکیورٹی والے گاڑی سے ایسے اترے جیسے گاڑی میں آگ لگی ہو اور یہ جان بچانے کی کوشش میں ہوں۔

پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پرسوں ایمبولنس کی مدد سے ہسپتال لے جانے والے مریض اس وقت چل بسے جب بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے مارے لوگوں نے سڑک کو بند کیا تھا اور یوں ایمبولنس کو راستہ نہ ملا۔ ادھر مریض حالتِ نزاع میں تھا اور یوں اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔ اب مریض کے خاندان اور ساتھ اس کے محلے والے سڑک پر نکلے انصاف مانگ رہے تھے۔ بد قسمتی سے اس ہنگامے میں وہ لوگ بھی شریک تھے جنہوں نے پرسوں جلوس میں بھی سڑک کو بند کرنے میں حصہ لیا تھا۔

بہرحال صاحب کو ایک اور میسج ریسیو ہوا ڈیڈ اگر آپ نہ آئے تو ہم کیک کاٹ دینگے اور میرا آپ سے پھر راضی ہونا مشکل ہو گا۔ صاحب نے گارڈز کو خالات کی نزاکت سے آگاہ کیا اور وہ سمجھ گئے۔ گارڈز کو صاحب کا اشارہ ملنا تھا کہ وہ جم غفیر پر ٹوٹ پڑے ایک دو ہوائی فائر بھی کئے اور یوں آن کے آن میں راستہ خالی کرایا۔ ادھر کیک پر چھری رکھی گئی تھی کہ صاحب ہنستے ہوئے گھر میں داخل ہوئے ہاتھ میں ایک بڑا لفافہ تھا جس میں قیمتی تخفے تھے۔

ویلکم ڈیڈ! آج آپ نے ثابت کر دیا کہ آپ اپنی بیٹی سے واقعی پیار کرتے ہیں اور اپنے نواسے سے بھی۔ صاحب کی بیوی وہاں پہلے سے موجود تھی جس نے صاحب کو قہر آلود نگاہوں سے دیکھا جس میں صاحب کیلئے یہ پیغام پوشیدہ تھا کہ صاحب نے دیر کر دی ہے۔ اگلی صبح صاحب نہا دھو کر صحن میں ناشتہ کرنے گئے تو اخبار پر سرسری نگاہ دوڑائی جس پر بڑی سرخی یہ تھی کہ "عوام پر ٹوٹے ہوئے مہنگائی کا ایک اور تودا، تیل اور گیس مزید پینتیس روپے مہنگا"۔

اسی اثناء میں ایک ملازم عورت آئی اور صاحب کے آگے ناشتہ رکھ دیا۔ صاحب نے ملازم عورت سے دریافت کیا کہ آج کل لوگ جلوس پہ جلوس نکال رہے ہیں ویسے بازار میں کیا نرخیں چل رہی ہیں؟ عورت شرماتی ہوئی بولی، جناب گھی اور تیل دو سو کلو، ٹماٹر ایک سو، آٹا ہزار روپے کلو۔ عورت بالترتیب ایک ایک شے بتانے والی ہی تھی کہ صاحب کا فوج بجا۔

اوہ! بس ٹھیک ہے اب آپ جا سکتی ہیں۔

اور صاحب فون کے سات مشغول ہو جاتے ہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan