Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. 6 May Ka Din Aur Hamari Fauj

6 May Ka Din Aur Hamari Fauj

6 مئی کا دن اور ہماری فوج

9 مئی کا دن پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے لکھا جائے گا۔ آنے والی نسلوں میں بے شمار جرنلسٹ اٹھیں گے، بے شمار سکالرز اور مفکر اٹھیں گے، بے شمار اہل قلم و اہل دانش اٹھیں گے جو 9 مئی کا دن مثال کے طور پر پیش کریں گے۔

اس دن عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بدلے میں عوام کے شدید ردعمل کے طور پر سرکاری و غیرہ سرکاری اور فوجی املاک کو نقصان پہنچانے کو آپ جو کہہ لے لیکن اگر کسی فرد یا پارٹی کی جانبداری سے قطع نظر دیکھا جائے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دن نصف صدی سے اس نظام کے خلاف عوامی نفرت کے اظہار کا دن ہے جس کی بدولت اس ملک کی تقدیر کے فیصلے کچھ محلاتی سازشوں کی بھینٹ چھڑتے ہیں۔ یہ دن ثابت کرتا ہے کہ عوام اب بے زار ہو چکے ہیں اس نظام سے جس نظام کے تحت سب کچھ طے شدہ سکرپٹ کے مطابق انجام پاتا ہے۔

یہ اکیسویں صدی ہے اس میں آپ کسی کے ضمیر کے فیصلوں کا ٹھیکہ نہیں لے سکتے، اس میں آپ کسی کی آواز کو زیادہ دیر تک دبا نہیں سکتے، اس میں آپ قوم کی تقدیر گنتی کے کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں دے سکتے۔ وہ تو پھتر کا زمانہ تھا جہاں آقا کا یہ ذہن بن چکا تھا کہ آقا پیدائش ہی سے آقا پیدا ہوتا ہے اور غلام کے ذہن میں یہ بات حقیقت میں بیٹھ چکی تھی کہ وہ پیدائش ہی سے غلام ہے اور ابد تک غلام رہے گا۔

آج کے انسان کو پتہ ہے کہ غلامی اصل میں سوچ کی غلامی ہوتی ہے حقیقت میں سارے انسان برابر ہے۔ آج تو چوتھی کلاس کے طالب علم کو بھی یہ علم ہوتا ہے کہ انسانی حقوق اور عالمی شہری کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ ووٹ کیا ہوتا ہے اور سیاسی جماعت کیا ہوتی ہے۔ البتہ وہ الگ بات ہے کہ پس پردہ کچھ اور عوامل اپنا کردار نبھا رہے ہوتے ہیں جو ان کے تقدیروں کا فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں۔

آج دنیا کے دیگر انسانوں کی طرح پاکستانی قوم کی بھی یہ خواہش ہے کہ ان کی مستقبل کی تقدیر کے فیصلے پردے کے پیچھے سرانجام نہ دئے جاتے ہو بلکہ ان کے آنکھوں اور کانوں کے سامنے انجام پاتے ہوں۔ آج پاکستانی قوم یہ ادراک کر چکی ہے کہ ووٹ صرف کاغذ کی پرچی نہیں ہوتی بلکہ یہ کسی انسان کے سمجھ و عقل پر مبنی رائے ہوتی ہے جس پر ووٹ ڈالنے والے کے ضمیر کا بھی سٹیمپ لگا ہوتا ہے۔

اگر نو سے گیارہ مئی تک کے عوامی ردعمل کو دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ عوام اب خواب غفلت سے انگڑائی لینے لگی ہے لیکن یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی کرنا ضروری ہے عوام نے فوج کی جو بےعزتی کی وہ ہرگز ایک دانشمندانہ حرکت نہیں ہے عوام کی اس حرکت کو سراہا نہیں جا سکتا۔ عوام کو یہ بھی ادراک ہونا چاہئے کہ فوج کے ایک عام سپاہی کو اس نظام کا قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا وہ تو اپنے لئے ایک چھٹی بھی منظور نہیں کرا سکتا تو ریاست کے نظام میں کیسے خلل ڈال سکتا ہے بلکہ ایک عام سپاہی تو کیا فوج کے پورے ادارے کو بھی مجرم ٹھہرانا عقل سے خالی بات ہے۔

سوشل میڈیا پر ایسے کلپس گردش کر رہے ہیں جس میں فوج پر جدید نارے بازی اور پتھراؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسے مناظر دیکھ کر ایک محب وطن انسان کا کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں عوام داد کے مستحق ہیں جنہوں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کی یا عوام میں سے ان لوگوں کو قصور وار پہ ٹھہرایا جائے جنہوں نے فوج پر پتھراؤ کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سیاسی قیادت کی غلطی ہے جن کے ہوتے ہوئے کارکنوں نے فوج پر پھتراؤ کیا اور سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔

یہ خان صاحب اور اس کے ماتحت لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کارکنوں کے غیض و غضب پر مبنی جذبات کو ناجائز طور پر استعمال نہ کرے عوام کو تو بس اشارے کی ضرورت ہوتی ہے اس کو جو حکم ان کی لیڈر کی طرف سے ملتا ہے وہ ان کو بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور دیگر اعلیٰ پائے کے لوگوں کو چاہئے تھا کہ وہ مشتعل جیالوں کو صبر و تحمل کی تلقین کرتے یا اگر خالات بالکل قابوں سے باہر تھے تو کم از کم پاک فوج سے متعلق تو بیان جاری کرتے کہ فوج کے خلاف نارے بازی اور مظاہرے سے باز رہے۔

لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف کے اعلیٰ پائے کے لوگ خود اس میں ملوث تھے۔ وہ بھول چکے تھے کہ عمران خان کی بیسیوں لوگ اس ملک پر گزرے ہیں لیکن وہ کل تھے آج نہیں تھے اسی طرح خان صاحب بھی آج ہے کل نہیں ہوگا اور یہ ملک انشاءاللہ تاقیامت قائم رہے گا اور ہمارے یہ سپاہی بھی تا قیامت ملک دشمن عناصر کے خلاف ملکی دفاع میں مصروف رہینگے۔ یہ کل بھی ملک کے لئے دستیاب تھے آج بھی ہے اور کل بھی ہونگے۔

لیکن سیاستدانوں کی کوئی گارنٹی نہیں یہ جب اقتدار ہاتھ سے نکلتا محسوس کرتا ہے تو یہ امریکہ، برطانیہ اور دوبئی وغیرہ چلے جاتے ہیں اور وہاں سے صرف وطن عزیز کا تماشا کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کو پھر نہ عوام کی ترس ستاتی ہیں اور نہ پاکستان کی۔ لیکن یہ فوج دشمن سے تو لڑنے میں ازل سے مصروف ہی ہے لیکن جب قدرتی آفات جیسے زلزلے اور سیلاب وغیرہ آتے ہیں تو سب سے پہلے یہ پہنچ جاتے ہیں۔

لہٰذا خدا کے لئے چند خودسر اور خود غرض اسٹبیلشمنٹ کی وجہ سے پورا ادارہ بدنام نہ کرو ایسا نہ ہو کہ ہمیں احساس ہونے میں دیر ہو جائے۔

Check Also

Ghor Karne Walon Ke Liye Nishaniyan Hain

By Rabia Naz Chishti