Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Usman Ghazi
  4. Wahid Hal (1)

Wahid Hal (1)

واحد حل (1)

اسرائیل کے خلاف مزاحمت 80 کی دہائی تک پوری دنیا کے جدوجہد پسندوں کا رومانس تھی، اس مزاحمت میں دنیا کے تمام مذاہب کے لوگ حصہ لیتے تھے، قانونی راستوں سے لے کر عسکری جدوجہد تک فلسطینیوں کو پوری دنیا سے کمک میسر تھی اور پھر جب یہ جدوجہد اس معراج کو پہنچی کہ اسرائیل حریت پسندوں سے مذاکرات پر مجبور ہوگیا، اسے غزہ سمیت دیگر علاقے خالی کرنے پڑے اور فلسطین میں فلسطینیوں کی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تو اچانک حماس پیدا ہوگئی یا کردی گئی جس نے حریت پسندوں اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے تمام معاہدوں کا انکار کرکے صرف ایسی یکطرفہ لڑائی کو مسئلے کا حل بتایا جس کی کوئی سمت نہیں ہے۔

فلسطین پوری دنیا کے لئے ایک حق و سچ کا معیار تھا مگر حماس کے بیانئے نے جدوجہدِ فلسطین کو ایک مذہب کا مسئلہ بناکر محدود کردیا، حماس کی جانب سے اسرائیل کے وجود کے خاتمے کے اعلان کو اسرائیل Anti Semitic رجحان کے طور پر لیتا ہے اور پوری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹتا ہے کہ یہودیوں سے جیسی نفرت ہٹلر کرتا تھا، ویسی نفرت حماس والے کرتے ہیں، اس بیانئے سے پوری دنیا کی ہمدردیاں اسرائیل کی جانب ہوجاتی ہیں جبکہ یاسر عرفات جیسے جدوجہدِ فلسطین کے ہیرو مسئلے کا حل دوریاستی فارمولے کی صورت میں پیش کرچکے ہیں، یعنی اسرائیل کی اپنی حدود ہوں گی اور فلسطین کی اپنی اور مجوزہ طور پر مشرقی یروشلم کو اقوام متحدہ کے کنٹرول میں دیا جائے گا جبکہ مسجد اقصی بدستور مسلمانوں کے پاس رہے گی، یہی مسئلہ فلسطین کا واحد حل ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ اسرائیل میں رہنے والے ایک کروڑ کے لگ بھگ انسانوں کو قتل کرکے سمندر برد کردیا جائے۔

فلسطین کے لئے حقیقی جدوجہد کرنے والوں نے مذہب کو اپنا مدعا کبھی نہیں بنایا تھا، یہی وجہ تھی کہ صرف مسیحی اور مسلمان ہی نہیں بلکہ یہودی بھی صیہونی اسرائیل کے خلاف ایک ساتھ مزاحمت کرتے تھے مگر حماس نے پوری دنیا کے ترقی پسند انسانوں کے اس مشترکہ کاز کو تہس نہس کرکے فلسطینیوں کو پوری دنیا میں تنہا کردیا، جارج حبش، لیلیٰ خالد، ہنا میخائل اور ودیع حداد وہ مسیحی ہیں کہ جنہوں نے اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کی، ایڈورڈ سعید اور انیس صایغ بھی مسیحی تھے اور اسرائیل کے خلاف بیانیہ بنانے میں ان کا ایک بہت بڑا حصہ ہے، یہودیوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ وہ مسجد اقصی کو ختم کرکے ہیکل سلیمانی بنائیں گے، اگر ایسا ہوتا تو اب تک یہ کام انجام دیا جاچکا ہوتا، یہودی یہ مانتے ہیں کہ ان کے مسیحا آئیں گے اور پھر وہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کریں گے، اسرائیل پر سب سے بڑا الزام ہی یہی تھا کہ وہ ایک مذہبی ریاست ہے اور مذہب کی بنیاد پر دوسرے عقائد رکھنے والوں سے امتیازی سلوک روا رکھتی ہے اور جب یہی کام حماس نے شروع کرکے خود کو فلسطین کا نمائندہ کہلوانا شروع کردیا تو دنیا کی نظروں میں بدقسمتی سے اسرائیل ایک بہتر پوزیشن پر آنے لگا۔

فلسطین کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے، مسجد اقصی مسلمانوں کے کنٹرول میں ہے اور ایک دن کے لئے بھی یہ مقدس مقام اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں آیا اور مشرقی یروشلم میں سیکیورٹی کنٹرول کے باوجود اسرائیل نے اب تک ایسی کوئی کوشش بھی نہیں کی کہ وہ مسجد اقصی پر قبضہ کرلے، فلسطین کے مسئلے کو کسی حد تک عرب نیشنلزم کی عینک سے دیکھا جاسکتا ہے تاہم حقیقی اعتبار میں یہ پوری دنیا کے لئے حق اور باطل کا معرکہ ہے، اسرائیل ہزاروں سال قبل کے بوگس مفروضات کی بنیاد پر فلسطینی آبادی کو بیدخل کرنا چاہتا ہے جو ایک غلط مقدمہ ہے اور جس طرح صیہونیوں کے بوگس مفروضات اس جدید دنیا میں نہیں چلیں گے بالکل اسی طرح مذہبی انتہاپسند مسلمانوں کے یہودیوں کے خاتمے کے بوگس نظریات کی اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں اور جو بھی اس انتہاپسندی کا مظاہرہ کرے گا، پوری دنیا میں تنہا رہ جائے گا۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ پانچ ہزار میزائل اسرائیل پر برسا کر حماس کے عسکریت پسند اچھل کود کرکے ویڈیو شوٹ کروارہے تھے، کچھ ہوا میں اڑ اڑ کر اِترا رہے تھے اور کچھ عام شہریوں کو دبوچنے کا لطف اٹھارہے تھے اور اب جب غاصب اسرائیل کے ہاتھوں معصوم فلسطینی شہید ہورہے ہیں تو ان کے سارے کرتب بند ہوچکے ہیں اور یہ لوگ منظرنامے سے تقریبا غائب ہیں، قطر کے کسی محل میں حماس کی قیادت حالیہ جنگ سے حاصل ہونے والا اربوں ڈالرز کا چندہ گن رہی ہوگی اور غزہ میں اسرائیل معصوم فلسطینیوں کو شہید کرکے قہر ڈھارہا ہے، فلسطینیوں کا مجرم صرف اسرائیل نہیں بلکہ حماس بھی ہے۔

اگر آپ فلسطین کاز کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ایک بار الفتح یا پی ایل او یا فلسطین اتھارٹی کے نقطہ نگاہ سے فلسطین کو دیکھیں۔۔ آپ کو ایک بالکل مختلف اور انتہائی منطقی منظرنامہ نظر آئے گا، آپ کو ایک حل نظر آئے گا، آپ کو اسرائیل کے خلاف حقیقی جدوجہد کی درست سمت نظر آئے گی جس میں کسی معصوم فلسطینی بچے کا قتل نہیں ہوگا بلکہ محض اسرائیل کے غاصب بیانئے کی ناکامی ہوگی۔

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz