Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Usman Ghazi
  4. Lahore Jalsa Aur Overacting

Lahore Jalsa Aur Overacting

لاہور جلسہ اور اوور ایکٹنگ

نواز شریف کی وطن واپسی زیادہ شان دار تھی یا اس وطن واپسی کے معاملے کو اجاگر کرنے کی سرتوڑ کوشش۔ یہ دونوں باتیں الگ الگ خانوں میں فٹ کی جانی چاہیں، پہلی بات کا تعلق سیاست سے ہے اور دوسری بات کا تعلق میڈیا منجمنٹ سے اور یقینا نوازشریف کی وطن واپسی کو اجاگر کرنے کے لیے جو میڈیا منجمنٹ ہوئی، وہ باکمال تھی۔

جلسے میں سب کچھ پلان کے مطابق ہوا، دورانِ نماز ساحر بگا والا پارٹی ترانہ اور اس دوران لیگی خواتین کے بہتے آنسو۔ نواز شریف کی آمد پر مریم نواز کا بے ساختہ گلے لگ کر فوٹو سیشن بھی بہت اچھا تھا البتہ جب اسحاق ڈار نے بھی گلے لگ کر رونے کی مشق کی تو تھوڑی اوور ایکٹنگ سی لگی کیونکہ وہ تو مسلسل ان کے ساتھ تھے، اس کے علاوہ کبوتر والا کرتب بھی فلاپ تھا، کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا کے بمصداق شہید محترمہ بینظیر بھٹو بننے کی کوشش میں جلسہ منتظمین نے میاں نواز شریف جیسے معزز سیاست دان کو سرکس کا ایسا جوکر بنادیا جو ہاتھ پر کبوتر بٹھا کر تماشہ دکھارہا ہو۔

مریم نواز کے آنسو نکلے تو مریم اورنگزیب نے بھی آنکھیں نم کرلیں، دونوں کو کم از کم ایک دوسرے کا کن اکھیوں سے جائزہ لے کر رونے دھونا نہیں چاہئیے تھا کہ تمام کیمروں کا رخ انہی کی جانب تھا، اُدھر جب میاں صاحب تقریر فرمارہے تھے تو مریم نواز ریلنگ پر دونوں کلائیاں رکھ کر اپنی ہتھیلیوں پر تھوڑی جمائے مجمع کی جانب رُخ کرکے بیٹھی تھیں اور میاں صاحب کے جملوں پر زیرلب مسکرارہی تھیں، یہ انداز قطعاً صورت حال کے مطابق نہیں تھا اور یہاں بھی اوور ایٹکنگ کے نمبر کٹنے چاہئیں۔

جلسے کی منجمنٹ بھی اچھی تھی، پورے پاکستان سے لگ بھگ 50 ہزار لوگوں کو جمع کرنا اور پھر آگے کی صفوں میں خیبرپختونخوا، سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے لائے گئے افراد کو بٹھا کر وفاقی پارٹی کا تاثر دینے کی ایک اچھی کوشش تھی مگر فطری استقبال کہیں نظر نہیں آیا، بے ساختہ خوشی کسی کے چہرے پر نظر نہیں آئی، لوگ لائے ضرور گئے، لوگ آئے نہیں، اربوں روپے خرچ کرکے تماشہ تو لگالیا گیا مگر کوئی ایسا تاثر قائم نہیں کیا جاسکا جو دوررس نتائج رکھتا ہو۔

جب مینار پاکستان کے ایک کونے میں یہ سب ہورہا تھا تو پورے لاہور میں زندگی رواں دواں تھی گویا کسی کو دلچسپی نہ ہو، اطراف کی آبادیوں نے بھی زحمت نہیں کی کہ وہ جلسہ گاہ کا رخ کریں، باہر سے جو آئے، سو آئے، انہی پر اکتفا کرلیا گیا تاہم یہ صورت حال نون لیگ کے لئے اچھی نہیں ہے، نون لیگ کے ہمدردوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ اس سب کو کیسے بہتر کرسکتے ہیں، نواز شریف کی تقریر بھی مفاہمت کا ایک اچھا پیکج تھی، ظاہر ہے کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں بڑی عدالت کے سزایافتہ ملزم کو چھوٹی عدالت سے پہلی بار ضمانت ملی ہے تو اتنی مفاہمت تو بنتی ہے۔

آپ نے خبریں سنی ہوں گی کہ سعودی عرب پاکستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گا، میرے خیال میں ان خبروں کے تانے بانے اسٹبلشمنٹ اور میاں صاحب دونوں سے ملتے ہیں، میاں صاحب نے سعودیوں کی جانب سے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری لانے کے منجن کو خوبی سے اسٹبلشمنٹ کو بیچ کر اپنی سزا کو وزیراعظم بننے کی جزا میں بدلنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے اور یہی ایک اچھے بزنس مین کی نشانی بھی ہے تاہم شاید یہ اربوں ڈالرز مراد سعید کے ان 200 ارب ڈالرز کی طرح ہی ہیں جو عمران خان نے دنیا کے منہ پر مارنے تھے، وہ ڈالرز بھی کبھی نہیں آئے اور یہ ڈالرز بھی کبھی نہیں آئیں گے۔

لاہور کے مینار پاکستان پر ہونے والی پریکٹس سے عوام میں یہ تاثر ضرور پیدا ہوا ہے کہ جس طرح عمران خان کو لایا گیا، بالکل اسی طرح نواز شریف کو بھی لایا جارہا ہے، اللہ کرے یہ تاثر غلط ہو اور نواز شریف جس اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں رکے، وہ اسٹیٹ کا نہ ہو، جس ہیلی کاپٹر میں شاہی قلعے اترے، وہ عمران خان والا نہ ہو، کاش نواز شریف اور عمران خان اسٹبلشمنٹ کے لئے آپشن بننے کی کوششوں کے بجائے عوامی سیاست کریں کیونکہ عوام یہی چاہتے ہیں۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (1)

By Wusat Ullah Khan