Kya PTI Ki Maar Dhar Inqilab Tha?
کیا پی ٹی آئی کی مار دھاڑ انقلاب تھا؟
جب قیدی وین کی سلاخوں سے لاہور کی دو لڑکیوں نے مسکرا کر کیمرے کی جانب دیکھا تو یہ منظر دیکھ کر کچھ دوست چھلانگیں مارنے لگے کہ یہی انقلاب ہے، اب اگر کسی کے نزدیک دو حسیناؤں کی مسکراہٹ انقلاب ہے تو یہ مسئلہ ٹھرک کا ہے کیونکہ انقلاب کا ایک منشور، لائحہ عمل اور منزل ہوتی ہے، فساد فی الارض کب سے انقلاب ہونے لگا؟
اسی طرح لاہور کی ایک لڑکی نے جب پولیس والوں کی جانب دوپٹہ پھینک کر انہیں چیلنج کیا اور بعد میں بیچاری گھسیٹ کر وین میں ڈال دی گئی تو کچھ دوست تو انقلاب کا نعرہ لگا کر چھلانگیں مارنے لگے، اگر بلیک لسٹ میں شامل ہونے والی اس لڑکی سے ہی یہ انقلابی دریافت کر لیں تو وہ روتے ہوئے کہے گی کہ میرے اس حماقت بھرے لمحے کو کوئی مجھ سے لے کر میری زندگی لوٹا دے جسے عمران خان جیسے عقل سے پیدل آدمی نے چھین لیا ہے۔
پی ٹی آئی نے جذباتی نوجوانوں کو بھڑکا کر خانہ جنگی کی کوشش کی اور ناکام ہوگئی، عمران خان ایک دن بھی قید کو برداشت نہ کر سکا اور ہزاروں نوجوانوں کی زندگی تباہ کر دی، پی ٹی آئی کا انقلاب دیکھنا ہو تو فواد چوہدری کی دوڑ کو دیکھیں، کراچی میں رینجرز چوکی جلانے والے باپ بیٹے کی التجائیں سنیں جن سے پی ٹی آئی نے اظہار لاتعلقی کر دیا ہے۔
بے شک تشدد، انقلابی سیاست کا ایک جزو ہوتا ہے مگر یہاں کس انقلاب کو لانے کی بات ہو رہی ہے؟ عمران خان کی مرضی کا آرمی چیف یا آئی ایس آئی چیف لگوانا اگر انقلاب ہے اور اس انقلاب کے لئے قیدوبند برداشت کرنا کسی جدوجہد کا نام ہے تو پھر واقعی ہمیں اپنے تصورِ انقلاب کو درست کرنا ہوگا، انقلاب میں نظام بدلے جاتے ہیں، عمران خان آج بھی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے سیاست کرنے کو تیار ہے مگر وہ اسٹیبلشمنٹ میں اپنی ٹیم لانا چاہتا ہے جیسے اسٹیبلشمنٹ کے اہم حصے عدلیہ میں اس کی ٹیم موجود ہے۔
عمران خان کے حکم پر خانہ جنگی میں حصہ لینے والے شرپسندوں کے خلاف ملک بھر میں کریک ڈاؤن جاری ہے، سرکاری، نجی اور فوجی املاک کو جلانے والوں سے ایک مہذب ریاست اور کیا سلوک کر سکتی ہے؟ کیا ان جنونیوں کو پھولوں کے ہار پہنا کر اب بھنگڑا ڈالا جائے گا کہ انہوں نے مسافر بسیں جلائیں؟ عمران خان 15 سالوں سے مسلسل تشدد کو فروغ دے رہا ہے، اس کی خرافات کو سن کر ایک نسل جوان ہوئی ہے، یہ ہمارے جیسے عام سے لوگ ہیں مگر ان کا جرم ہمارے جیسا عام سا نہیں ہے، اگر انہیں سزائیں نہ دی گئیں تو جدوجہد اور فساد کا فرق مٹ جائے گا۔
لائحہ عمل، منزل کا تعین اور منشور تو دور کی بات، عمران خان کے پاس اپنی کسی بات پر عمل درآمد کروانے کے لئے پورے ملک میں نچلی سطح تک تنظیمی ڈھانچہ تک نہیں ہے جو ایک روایتی سیاسی جماعت کی بنیاد ہوتا ہے، عمران خان کے پاس صرف ایک پرکشش نعرہ ہے کہ اشرافیہ ملک لوٹ کر کھا گئی ہے اور میرے علاوہ سب چور ہیں، یہ پاپولسٹ سیاست کا بیانیہ ہے، اسے انقلاب کہنا بددیانتی کی بھی انتہا ہوگی۔