Imran, Bajwa, Alvi Mulaqat
عمران، باجوہ، علوی ملاقات
عمران خان دلچسپ انسان ہیں، وہ اپنے بیانات اور انکشافات سے خود ہی ثابت کر رہے ہیں کہ وہ پرلے درجے کے نااہل آدمی ہیں، عمران خان کے حالیہ انکشاف کے مطابق اگست ستمبر میں جنرل باجوہ صدر مملکت عارف علوی کی معیت میں خفیہ طور پر عمران خان سے ملے، اس وقت تک جنرل باجوہ آرمی چیف تھے اور عمران خان انہیں غدار ڈیکلیئر کر چکے تھے۔
عمران، باجوہ، علوی ملاقات میں منتخب عوامی حکومت کو گرانے کی سازش تیار کی گئی، عمران خان کے مطابق جنرل باجوہ نے انہیں کہا کہ آپ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیں اور عمران خان نے اس جنرل باجوہ کے حکم پر نومبر میں اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان کر دیا کہ جس جنرل باجوہ کو وہ جلسوں میں غدار قرار دیتے پھر رہے تھے، اسمبلیوں کی اس غیر قانونی تحلیل کا مقصد منتخب عوامی حکومت کا تختہ الٹ کر فوری الیکشن کو ممکن بنانا تھا۔
یہاں کچھ سوال ایسے ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بطور آرمی چیف جنرل باجوہ نے پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی کیوں بنائی؟
عمران خان نے غدار قرار دینے کے بعد اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے جنرل باجوہ کے مشورے پر عمل کیوں کیا! ان دونوں میں کیا گٹھ جوڑ تھا؟
اپنے عہدے پر فائز صدر مملکت کیسے ایک منتخب عوامی حکومت کے خلاف سازش میں شریک تھا؟
جنرل باجوہ نے بطور آرمی چیف کیوں ایک منتخب عوامی حکومت کے خلاف سازش کی؟
جنرل باجوہ کی عمران خان سے خفیہ ملاقات کو ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی کیوں چھپایا گیا اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کو چھپانا کس کا مطالبہ تھا؟
جنرل باجوہ کی جانب سے اس وقت عمران خان کو اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد کون سی یقین دہانیاں کروائیں گئیں؟
سپریم کورٹ آف پاکستان پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی غیر قانونی تحلیل پر کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے؟
عمران خان کے حالیہ انکشاف کے بعد یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے جمہوری عمل نے اسٹیبلشمنٹ کو بے بس کیا مگر اسٹیبلشمنٹ کے عناصر عمران خان کی حکومت کے دوبارہ قیام کی سازش رچاتے رہے، یہ بھی ثابت ہو چکا کہ عمران خان کی حکومت کے گرانے کے پیچھے نہ امریکا تھا اور نہ باجوہ۔ کیونکہ یہ دونوں تو عمران خان کی حکومت بچاتے رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی حکومت ایک جانب اور دوسری جانب عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے کچھ عناصر کا مضبوط نمائندہ بن کر کھڑا ہے، یہ جنگ آج بھی عوام اور اشرافیہ کے درمیان ہے، بس فرق اتنا ہے کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے عوامی سیاست کے نئے روپ میں میدان میں اتارا ہوا ہے اور اب اپنی ہی حماقتوں سے عمران خان نے خود اپنا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔