Chande Ka Dhanda
چندے کا دھندہ
آپ کو چندے کا دھندہ کرنے والی مذہبی جماعتوں نے بتایا ہوگا کہ انہیں مسجد اقصی کو آزاد کرانا ہے اس لئے انہیں آپ کے پیسے چاہئیں اور اگر آپ جذبہ ایمانی سے مغلوب ہوکر واقعی اپنی جیب ڈھیلی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ایک لمحے کے لئے ٹہر جائیں کیونکہ مسجد اقصی کا کنٹرول مسلم عرب ملک اردن کے پاس پہلے سے موجود ہے۔
مسجد اقصی کو یروشلم وقف نام کا ایک ادارہ چلاتا ہے جو اردن کی وزارت برائے اوقاف و مذہبی امور برائے مقدس مقامات کے ماتحت ہے، اس وقف کے 20 اراکین ہوتے ہیں، شیخ عظام الخاطب اس کے موجودہ سربراہ ہیں، زمانہ قدیم سے مسجد اقصی کا کنٹرول اردن کے ہاشمی قبیلے کے پاس ہے اور یہ روایت آج تک چلی آرہی ہے، ہمارے پیارے اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ کا تعلق بھی ہاشمی قبیلے سے تھا۔
چندے کا دھندہ کرنے والی مذہبی جماعتوں نے آپ کو بتایا ہوگا کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنایا ہوا ہے اس لئے انہیں آپ کے پیسے چاہئیں، اگر آپ کا واقع دل بھرآیا ہے تو ایک منٹ کے لئے ٹہرئیے، غزہ کی پٹی کے اطراف دو راستے ہیں، ایک اسرائیل کی جانب سے اور دوسرا مصر کی جانب سے۔۔ غزہ کا محاصرہ صرف اسرائیل نے نہیں کیا ہوا بلکہ مصر نے بھی کیا ہوا ہے، حیرانی کی بات ہے کہ مذہبی جماعتیں محاصرہ کرنے والے اسرائیل کا نام تو لیتی ہیں مگر مصر کے نام کو چھپالیتی ہیں۔
یہ مصر کا ہی راستہ ہے جسے مذہبی تنظیمیں فلسطین کے نام پر اربوں روپے کے چندے کا دھندہ کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں، حماس کے میزائل برسانے کے بعد جب غزہ کے شہری اسرائیل کے ہاتھوں مررہے ہوتے ہیں تو مصر کی حکومت مذہبی تنظیموں کو کمائی کا موقع دینے کے لئے رفاہ بارڈر کو کھول دیتی ہے، حماس راکٹ برساتی رہتی ہے، غزہ کے شہری مرتے رہتے ہیں اور مذہبی تنظیموں کے چندے کی چاندی ہوتی رہتی ہے، یہ کاروبار کامیابی سے 2007 سے جاری ہے۔
غزہ کی پٹی پر مصر کا قبضہ تھا، 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے چھ عرب ممالک کو شکست دے کر مصر سے غزہ کی پٹی کا قبضہ حاصل کرلیا اور نوے کی دہائی میں جب الفتح اور اسرائیل کے درمیان اوسلو معاہدہ ہوا تو فلسطین اتھارٹی وجود میں آئی اور غزہ کا کنٹرول فلسطینیوں کے پاس آگیا، اسی اوسلو معاہدے کے نتیجے میں انتخابات ہوئے تاہم حماس نے اسرائیل اور الفتح کے درمیان ہونے والے تمام معاہدوں کو ماننے سے انکار کردیا اور 2007 میں غزہ میں اپنی حکومت بنالی، حماس فلسطین کی نمائندہ جماعت نہیں ہے، پاکستان سمیت مسلم دنیا اور عالمی دنیا فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے کے حل کے لئے جس دو ریاستی فارمولے کو تسلیم کرتے ہیں، حماس اس کا انکار کرتی ہے اور یہی عسکری تنظیم مسئلہ فلسطین کے حل میں ایک سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
اگر آپ واقعی چاہتے ہیں کہ ظلم کا خاتمہ ہو تو فلسطین کے مستقل حل پر بات کریں، جنگ اس مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے، راکٹ برسا کر حماس کا دھندہ چل رہا ہے اور اسرائیل کے سیاست دان بھی حکومت مضبوط کرکے اپنی نوکری پکی کررہے ہیں، مسئلے کا حل دو ریاستی فارمولا ہے جسے دونوں طرف کے انتہاپسند ناکام بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔